Ayats Found (2)
Surah 31 : Ayat 12
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی1 کہ اللہ کا شکر گزار ہو2 جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے3
3 | یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفراس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔ |
2 | یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان اپنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری واحسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اوراس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔ |
1 | شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام،ج ۲، ص ۶۷۔۶۹۔ اُسُد الغابہ ،ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔ |
Surah 39 : Ayat 7
إِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُمْۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ ٱلْكُفْرَۖ وَإِن تَشْكُرُواْ يَرْضَهُ لَكُمْۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَۚ إِنَّهُۥ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے1، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا2، اور اگر تم شکر کر و تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے3 کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا4 آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے
4 | مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفت اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے |
3 | کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے، اور ایمان جی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں۔ |
2 | یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالٰی یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو،ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ |
1 | یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے یا عبادی لو ان اول کم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کا نو اعلیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً۔ اے میرے بندو، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جِن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔‘‘ (مسلم) |