Ayats Found (1)
Surah 39 : Ayat 29
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً رَّجُلاً فِيهِ شُرَكَآءُ مُتَشَـٰكِسُونَ وَرَجُلاً سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلاًۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ ایک مثال دیتا ہے ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتاہے؟ 1الحمدللہ2، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں3
3 | یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی کا فرق جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں |
2 | یہاں الحمد لِلہ کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ نقشہ ذہن میں لایئے کہ اوپر کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد مقرر نے سکوت کیا، تاکہ اگر مخالفین توحید کے پاس اس کا کوئی جواب ہو تو دیں۔ پھر جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور کسی طرف سے یہ آواز نہ آئی کہ دونوں برابر ہیں، تو مقرر نے کہا الحمد لِلہ۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ تم خود بھی اپنے دلوں میں ان دونوں حالتوں کا فرق محسوس کرتے ہواور تم میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ ایک آقا کی بندگی سے بہت سے آقاؤں کی بندگی بہتر ہے یا دونوں یکساں ہیں۔ |
1 | اس مثال میں اللہ تعالٰی نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں،اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو،اور وہ مالک بھی ایسے بد مزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو،اوران کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو،اس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہو گی۔اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و تامل کی حاجت نہیں ہے۔اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خداؤں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آ سکتا۔اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقاؤں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقاؤں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔پتھر کے بُت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بُلاتے ہیں۔یہ کام تو زندہ آقاؤں ہی کے کرنے کے ہیں۔ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔دوسرے بے شمار آقا گھر میں،خاندان میں،برادری میں،قوم اور ملک کے معاشرے میں،مذہبی پیشواؤں میں،حکمرانوں اور قانون سازوں میں،کاروبار اور معیشت کے دائروں میں،اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔کوئی دل مسوستا ہے۔کوئی روٹھ جاتا ہے۔کوئی نکّو بناتا ہے۔کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔کوئی دیوالہ نکالتا ہے،کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکے۔توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلےسے بھی زیادہ بڑھ جائے،لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آجائے گا۔وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔وہ خاندان، برادری، قوم، حکومت، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں،بلکہ لازماً پہنچیں گی۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں،اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجا لاؤں۔یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہو گا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خداؤں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچا لی۔دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض شعبہ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاد اً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ، قانون اسی کو جرم قرار دے، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے، منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اسکی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اسکو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کر دے، اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگیٔ رب اور بندگیٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو، بہرحال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنا لے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے نا واقف ہو اورعقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاء علیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے۔ |