Ayats Found (7)
Surah 3 : Ayat 173
ٱلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَٱخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَـٰنًا وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ وَنِعْمَ ٱلْوَكِيلُ
اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، "تماررے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو"، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے
Surah 33 : Ayat 22
وَلَمَّا رَءَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْأَحْزَابَ قَالُواْ هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَصَدَقَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّآ إِيمَـٰنًا وَتَسْلِيمًا
اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ)1 جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ 2"یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی" اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا3
3 | یعنی اس سیلابِ بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشاتِ نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا۔ اگر چہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی سکن و جامد حالت نہیں ہی جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزّل کی موجب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سرِ مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھُن جتنی بڑھتی چلی جائے، ایمان اُسی نسبت سے پڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخِل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے۔ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کی حقوق زیادہ ہوں، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص،’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن‘جلد ۲‘الانفال‘حاشیہ ۲۔جلد پنجم‘الفتح‘حاشیہ ۷) |
2 | اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دِل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پُکار پکار کر کہنے لگے کہ’’سارے وعدے جو اللہ اوراس کے رسولؐ نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دینِ خدا پرایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی، عرب و عجم پر تمہارا سکّہ رواں ہو گا، اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھُل جائیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تُل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آ رہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں۔‘‘ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اوراس کے رسولؐ کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو اُن جھوٹے مدّعیانِ ایمان نے سمجھا تھا۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا۔ خطرات اُمنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے، مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی اُنگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آکر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے، بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمایشوں سے تم کو گزرنا ہو گا، مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے، گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی، تب کہیں جا کراللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اورآخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْ خُلُواالْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ۔ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْ سَآ ئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْ احَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ امَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللہِ۔ط۔ اَلَآاِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبُٗ O(البقرہ۔ آیت ۲۱۴) کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یوں ہی داخل ہو جاؤ گے؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اُٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد۔۔ سنو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓااَنْیَّقُوُلُوْٓااٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَoوَلقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنً صَدَقُوْاوَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِ بِیْنَo(العنکبوت: ۲۔۳) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور انھیں آزمایا نہ جائیگا؟ حالانکہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اُن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ |
1 | رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالٰی صحابۂ کرام کے طرزِ عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے جھوٹے مدعیوں اور سچّے دِل سے رسولؐ کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے۔ اگرچہ ظاہری اقرارِ ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون۔ |
Surah 47 : Ayat 17
وَٱلَّذِينَ ٱهْتَدَوْاْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـٰهُمْ تَقْوَٮٰهُمْ
رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے1 اور انہیں اُن کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے2
2 | یعنی جس تقویٰ کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق انہیں عطا فرما دیتا ہے |
1 | یعنی وہی باتیں، جن کو سن کر کفار و منافقین پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی آپ کیا فرما رہے تھے، ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مزید ہدایت کی موجب ہوتی ہیں، اور جس مجلس سے وہ بد نصیب اپنا وقت ضائع کر کے اٹھتے ہیں، اسی مجلس سے یہ خوش نصیب لوگ علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ حاصل کر کے پلٹتے ہیں |
Surah 74 : Ayat 31
وَمَا جَعَلْنَآ أَصْحَـٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَـٰٓئِكَةًۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيَسْتَيْقِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَيَزْدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِيمَـٰنًاۙ وَلَا يَرْتَابَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمُؤْمِنُونَۙ وَلِيَقُولَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَٱلْكَـٰفِرُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاًۚ كَذَٲلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَۚ وَمَا هِىَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم1 نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں2، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے3، تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے4 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے5، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار6 اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے7 اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے8 اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں9 جانتا اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو10
10 | یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں |
9 | یعنی اللہ تعالی نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو ا للہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدائی کا کارخانہ اتنا وسیع وعظیم ہے کہ اس کی کسی چیز کا بھی پوراعلم حاصل کرلینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور اس کے چھوٹے سےدماغ میں سماسکے |
8 | یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور ا پنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ا یک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی بات کو ا یک ہٹ دھرم ، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا لیتا ہے ۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی اسے ہدایت بخش دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے ۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیےاللہ اسےضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ ا للہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔ (اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: جلد اول، البقرہ ، حواشی 10، 16، 19، 20۔ النساء، حاشیہ 173۔ الانعام، حواشی 17، 28، 90۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 13۔ جلد سوم، الکہف، حاشیہ 45۔ القصص، حاشیہ 71) |
7 | اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی ۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے |
6 | قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’’دل کی بیماری‘‘ سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم میں صفحہ 672 ، 674 اور 680 تا 682 پر واضح کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا ا ور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھےاورہیں جو قطعیت کےساتھ خدا، آخرت، وحی، رسالت، جنت، دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں۔ اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں۔ آخرت ہو گی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا یہ محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھےاوران پر وحی آتی تھی یا نہیں۔ یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لےگیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر ان حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرہ برابر بھی عقل کا مادہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ان امور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اورانہیں قطعاً خارج از امکان قرار دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے |
5 | یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہرآزمائش کے موقع پرجب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہےاورشک وانکار یا اطاعت سے فراریا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین واعتماد اوراطاعت وفرمانبرداری اور دین سےوفاداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کےایمان کوبالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن ، جلد اول، آل عمران، آیت 173۔ جلد دوم، الانفال، آیت 2، حاشیہ 6۔ التوبہ، آیات 124 ۔ 125۔ حاشیہ 125۔ جلد چہارم، الاحزاب ، آیت 22، حاشیہ 83۔ جلد پنجم، الفتح، آیت 4، حاشیہ 7) |
4 | بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالی ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول یہ کہ یہود و نصاری کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے۔ دوسرے قرآن مجید میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میراخوب مذاق اڑایا جائے گا، لیکن اس کے باوجود جو بات اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق و استہزاء کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے ناواقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوکا تولوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی وا ضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ طرز عمل بارہا ظاہرہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرہ برابر پروا نہ کی اس حیرت انگیز قصے کو سن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے |
3 | یعنی بظاہر تو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کی جاتی۔ لیکن ہم نے ان کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے با رے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد و حساب مجرم جنوں اورانسانوں کو صرف 19 سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداََ فرداََ ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فورا کھل کر باہر آ جائے گا |
2 | یعنی ان کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں |
1 | یہاں سے لے کر ’’تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر ان معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے حضورؐ کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف 19 ہو گی، اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف سے ہم سے یہ کہا جا رہا کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفراورکبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف 19 کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قر یش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا، ’’بھائیو، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ا یک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے‘‘؟ بنی جمح کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’’ 17 سے تو میں اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں |
Surah 8 : Ayat 2
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے1 اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں
1 | یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الہٰی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیمق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف ، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا و ررسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر ے تو اس سے آدمی کے ایمن کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے ار تنزل بھی۔ البتہ فقی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و داجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں دی یا حربی یا معاہدومسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو |
Surah 9 : Ayat 124
وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِۦٓ إِيمَـٰنًاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ "کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟" (اس کا جواب یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں
Surah 48 : Ayat 4
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ فِى قُلُوبِ ٱلْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوٓاْ إِيمَـٰنًا مَّعَ إِيمَـٰنِهِمْۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی1 تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں2 زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے3
3 | مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر ایہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے |
2 | یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص، تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان، مال ، جذبات ، خواہشات، اوقات، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اور اگر منہ موڑ جاۓ تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوۓ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 2، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 38) |
1 | سکینت عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گۓ ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوۓ۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوۓ مجمع عام میں آ کھڑے ہوۓ ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو ساا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے بر حق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آۓ سب گوارا ہے۔اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا |