Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 179
مَّا كَانَ ٱللَّهُ لِيَذَرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ ٱلْخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۚ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو1 وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے2 غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا
2 | یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھُل جائے گا |
1 | یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہلِ ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں |
Surah 29 : Ayat 1
الٓمٓ
الف ل م
Surah 29 : Ayat 3
وَلَقَدْ فَتَنَّا ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۖ فَلَيَعْلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَلَيَعْلَمَنَّ ٱلْكَـٰذِبِينَ
حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں1 اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے2 کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون
2 | اصل الفاظ میں فَلَیَعلَمَنَ اللہُ جن کا لفظی ترجمعہ ہوگا کہ ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے اس پر ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ سچے کی سچائی اور جھوٹےکا جھوٹ خود معلوم ہے آزمائش کرکے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے عملا اس کا ظہور نہیں ہو جاتا، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلا ایک آسمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت۔ ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہو جائے، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علم سابق جا اللہ کو لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال سے پہلے اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آنئدہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کر دیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھادی ہے۔ اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترھمعہ اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے کیا ہے۔ |
1 | یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہُوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے۔ اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری کیا خصوصیات ہے کہ تمہیں زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔ |