Ayats Found (1)
Surah 27 : Ayat 40
قَالَ ٱلَّذِى عِندَهُۥ عِلْمٌ مِّنَ ٱلْكِتَـٰبِ أَنَا۟ ءَاتِيكَ بِهِۦ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَۚ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُۥ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّى لِيَبْلُوَنِىٓ ءَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّى غَنِىٌّ كَرِيمٌ
جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا "میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں1" جونہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اٹھا "یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں2 اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے3"
3 | یعنی وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ زرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اورنہ کسی کی ناشکری واحسان فراموشی سے یک سرموکوئی کمی آتی ہے۔ وہ آپ اپن ہی بل بوتے پر خدائی کررہا ہے، بندوں کے ماننے یانہ ماننے پراس کی خدائی منحصر نہیں ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسٰیؑ کی زبان سے نقل کی گئی ہے کہ انّ تَکفُرُوااَنتُم وَمن فیِ الاَرضِ جمیعاََ فاِنّ اللہَ لغنیٌّ حمیدٌ۔ ’’اگر تم اورساری دنیا والے مل کربھی کفر کریں تواللہ بےنیازاور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘ (ابراہیم۔ آیت ۸)۔ اوریہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے جوصحیح مسلم میں وار ہوئی ہے کہ: یعقول اللہ تعالیٰ یا عبادی لوانّ اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم مازاد ذالک فی ملکی شیئا۔ یاعبادی لوان اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانواعلے افجوقلب رجل منکم مانقص ذٰالک فی ملکی شیئا۔ یا عبادی انما ھی اعمالکم احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا۔ فمن وجد خیرافلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذالک فلا یلومن الا نفسہ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اورجن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جلیے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی اضافہ نہ ہوجائیگا۔اے میرے بندوں، اگر اور سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص لے دل جیسے ہوجاؤ تومیری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہو جائے گی۔ اے میرے بندو، یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتاہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہواسے چاہیے کہ اللہ کا شکراداکرے اورجسے کچھ اورنصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کوملامت کرے۔ |
2 | قرآن مجید کا اندازبیان اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ اُس دیو ہیکل جن کے دعوے کی طرح اس شخص کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی نہ رہا بلکہ فی الواقع جس وقت اس نے دعویٰ کیا اسی وقت ایک ہی لحظہ میں وہ تخت حضرت سلیمانؑ کے سامنے رکھا نظرآیا۔ ذرااِن الفاظ پرغور کیجیے:’’اس شخص نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے آتا ہوں۔ جونہی کہ سلیمانؑ نے اسے اپنے پاس رکھا دیکھا‘‘۔ جوشخص بھی واقعہ کے عجیب وغریب ہونے کاتصور ذہن سے نکال بجائے خود اس عبارت کوپڑھے گاوہ اس سے یہی مفہوم لے گا کہ اس شخص کے یہ کتنے ہی دوسرے لمحہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا اس دعویٰ کیاتھا۔ اس سیدھی سی بات کو خوامخواہ تاویل کے خراد پرچڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تخت کو دیکھتے ہی حضرت سلیمانؑ کایہ کہنا کہ ’’ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتاہوں‘‘اسی صورت میں برمحل ہوسکتا ہے جب کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو۔ ورنہ اگر واقعہ یہ ہوتا کہ ان کا ایک ہوشیار ملازم ملکہ کےلیے جلدی سے ایک تخت بنالایا یا بنوالایا، تو ظاہر ہے کہ یہ ایسی کوئی نادربات نہ ہوسکتی تھی کہ اس پرحضرت سلیمان ؑ بے اختیار ھٰذا من فضل ربی پکار اُٹھتے اوران کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتاکہ اتنے جلدی مہمان عزیز کےلیے تخت تیار ہوجانے سے کہیں میں شاکر نعمت بننے کے بجائے کافرِنعمت بن جاؤں۔ آخر اتنی سی بات پر کسی مومن فرمانروا کو اتنا غرور اورکبرنفس لاحق ہوجانے کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے، خصوصاََ جبکہ وہ ایک معمولی مومن نہ ہو بلکہ اللہ کا نبی ہو۔ اب رہی یہ بات کہ ٖڈیڑھ ہزار میل سے ایک تخت شاہی پلک جھپکتے کس طرح اُٹھ کرآگیا، تواس کا مختصر جواب یہ ہے کہ زمان ومکان اورمادہ وحرکت کے جوتصورات ہم نے اپنے تجربات ومشاہدات کہ بنا پرقائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پرمنطبق ہوتے ہیں۔ خدا کےلیے نہ یہ تصورات صحیح ہیں اورنہ وہ ان حدود سے محدود ہے۔ اس کی قدرت ایک معمولی تخت تو درکنار، سورج اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کوآن کی آں میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کراسکتی ہے۔ جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عظیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنیٰ اشارہ ہی ملکہء سبا کے تخت کوروشنی کی رفتا سے چلادینے کےلیے کافی تھا۔ آخر اسی قرآں میںیہ زکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک رات اپنےبندے محمدﷺ مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اورواپس بھی لے آیا |
1 | اس شخص کے بارے میں قطعی پریہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا، اوراس کے پاس وہ کس خاص قسم کاعلم تھا، اوراس کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے جس کاعلم اس کے پاس تھا۔ ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں۔ مفسرین میں سے بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھا اوربعض کہتے ہیں کہ وہ کوئی انسان تھا۔ پھراُس انسان کی شخصیت کے تعین میں بھی ان کے درمیان اختلاف ہے۔ کوئی آصف بن برخیاہ(Barchieh Asaf-B-) کا نام لیتا ہے جو یہودی ربیّوں کی روایات کے مطابق رئیس الرجال(Prince of men) تھے، کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت خضر تھے، کوئی کسی اورکانام لیتا ہے، اورامام رازی کواصرار ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان ؑ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی قابل اعتماد ماخز نہیں ہے، اورامام رازی کی بات تو قرآن کے سیاق وسباق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور کوئی کتاب شریعت مراد لیتا ہے۔ لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں اورایسے ہی قیاسات اُس علم کے بارے میں بھی بلادلیل وثبوت قائم کرلیے گئے ہیں جوکتاب سے اس شخص کوحاصل تھا۔ ہم صرف اُتنی ہی بات جانتے اورمانتے ہیں جتنی قرآن میں فرمائی گئی ہے، یا جواس کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے۔ وہ شخص بہرحال جن کی نوع میں سے نہ تھا اوربعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو۔ اس کے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب (الکتاب) سے ماخوز تھا۔ جن اپنے وجود کی طاقت سے اس تخت کوچند گھنٹوں میں اُٹھا لانے کا دعویٰ کررہا تھا۔ یہ شخص علم کی طاقت سے اس کوایک لحظہ میں اُٹھالایا۔ |