Ayats Found (3)
Surah 61 : Ayat 10
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَـٰرَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت1 جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟
1 | تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 106 ) |
Surah 61 : Ayat 13
وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَاۖ نَصْرٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح 1اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو
1 | دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگر چہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا |
Surah 64 : Ayat 9
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ ٱلْجَمْعِۖ ذَٲلِكَ يَوْمُ ٱلتَّغَابُنِۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَيَعْمَلْ صَـٰلِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّـَٔـاتِهِۦ وَيُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۚ ذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
(اِس کا پتا تمہیں اس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا 1وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا 2جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے3، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے
3 | اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے ، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوۓ اختیار کر لیا ہو، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوۓ قانون کے مطابق ہو۔لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں |
2 | اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آۓ ہیں ، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے۔ تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی۔ غَبُن زیادہ تر خرید و فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن راۓ کے معاملہ میں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں : غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ، ’’ ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی‘‘۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ، ’’ اس نے فلاں شخص کو خرید و فروخت میں دھوکا دے دیا’’۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا ‘‘۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ، ’’ فلاں شخس سے اپنا حق وسول کرنے میں مجھ سے بھول ہو گئی ‘‘ غَبِیْن، ’’ وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی راۓ کمزور ہو‘‘ مَغْبُوْن، ’’ وہ شخص جو دھوکا کھا جاۓ‘‘۔ لاغبن، الغفلۃ، النسیان، فوت الحظ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء، ’’ غبن کے معنی ہیں غفلت، بھول،اپنے حصے سے محروم رہ جانا، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کارو بار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا‘‘۔ امام حسن بصریؒ نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک ’’ یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے ‘‘۔ اس سے جب لفظ تغابُن بنایا جاۓ تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ تَغَا بَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جاتا۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الراۓ ثابت ہونا۔ اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ،’’وہ دن ہو گا تغابن کا ‘‘۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے ، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے ، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہو گا۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔ مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوۓ اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرِقاق میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا’’ جو شخص بھی جنت میں جاۓ گا اسے وہ مقام دیا جاۓ گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ بُرا عمل کرتا، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جاۓ گا اسے وہ مقام دکھا دیا جاۓ گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو ‘‘ بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جاۓ گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں ، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہو گا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہرجانہ یا تاوان دے سکے۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کر سکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے ، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ بخاری، کتاب الرقاق میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، ’’ جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے ، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہونگے ہی نہیں۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے ‘‘۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن اُنیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جاۓ جو اس نے کسی پر کیا ہو، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہو گا‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جاۓ گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا ’’ اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہو گا‘‘۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا، ’’ جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ ‘‘ لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوٰۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جا سکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیے گۓ، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا‘‘۔ ایک اور حدیث میں ، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بُریدہ سے نقل کیا ہے ، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’ کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کر دیا جاۓ گا اور اس کو کہا جاۓ گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے ’’ پھر حضورؐ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ’’ پھر تمہارا کیا خیال ہے ‘‘؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا؟ بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں ، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نا فرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا۔ دنیا میں یہ ہو سکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہو جاۓ گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ، آیات 16۔ 175۔ 207۔ آل عمران 77۔ 177۔ النساء 74۔ التوبہ 111۔ النحل 95۔ فاطر 29۔ الصف 10۔ ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بد کردار خاندانوں کے افراد، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے ، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ، بے ایمان تاجروں ، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں ، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی، بیوی، شوہر، اولاد، دوست، رفیق، لیڈر، پیر، مرید، یا حامی و مدد گار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت، عداوت میں تبدیل ہو جاۓ گی۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے ، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلواۓ۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جا سکتی ہیں : البقرہ 167۔ الاعراف 37 تا 39۔ ابراہیم 21۔ 22۔ المومنون 101۔ العنکبوت 12۔13۔25۔ لقمٰن 33۔ الاحزاب 67۔68۔سبا 31 تا 33۔ فاطر 18۔ الصّٰفّٰت 27 تا 33۔ صٓ59 تا 61۔حٰم السجدہ 29۔ الذخرف 67۔ الدخان 41۔ المعارج 10تا 14۔عبس 34 تا 37 |
1 | اجتماع کے دن سے مراد قیامت، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتداۓ آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوۓ ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْ عٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ، ’’ وہ ایک ایسا دن ہو گا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا‘‘(آیت 103)۔ اور سورہ واقعہ میں فرمایا : قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلیٰ مِیْقَا تِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ، ’’ ان سے کہو کہ تمام پہلے گزر ے ہوۓ اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں ‘‘ (آیت 50) |