Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 136
قُولُوٓاْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَآ أُنزِلَ إِلَىٰٓ إِبْرَٲهِــۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ وَإِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلْأَسْبَاطِ وَمَآ أُوتِىَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَآ أُوتِىَ ٱلنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُۥ مُسْلِمُونَ
مسلمانو! کہو کہ: 1"ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں"
1 | پیغمبروں کے درمیان تفریق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُن کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتے کہ فلاں حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا یہ کہ ہم فلاں کو مانتے ہیں اور فلاں کو نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے ہیں، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بُلانے آئے ہیں۔ لہٰذا جو شخص صحیح معنی میں حق پرست ہے، اُس کے لیے تمام پیغمبر وں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اُس پیغمبر کے بھی پیرو نہیں ہیں، جسے وہ مانتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے دراصل اُس عالمگیر صراط ِ مستقیم کو نہیں پایا ہے، جسے حضرت موسیؑ یا عیسٰی ؑ یا کسی دُوسرے پیغمبر نے پیش کیا تھا، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں ۔ اُن کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصّب اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید ہے، نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی |
Surah 29 : Ayat 46
۞ وَلَا تُجَـٰدِلُوٓاْ أَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ إِلَّا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْۖ وَقُولُوٓاْ ءَامَنَّا بِٱلَّذِىٓ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَٲحِدٌ وَنَحْنُ لَهُۥ مُسْلِمُونَ
اور اہل کتاب1 سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے2، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں3، اور اُن سے کہو کہ 4"ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں"
4 | ان فقروں میں اللہ تعالٰی نے خود اُس عمدہ طریق بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہوگی اُس کی گمراہی کو نقطہ بحث بنا کر آغاز نہ کرو بلکہ بات اس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونسے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں۔ یعنی آغاز کلام نکاتَِ اختلاف سے نہیں بلکہ اتفاق سے ہونا چاہیے پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کرکے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور اس کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل کتاب مشرکین عرب کی طرح وحی اور رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح ان سب حققیقتوں کو مانتے تھے، ان بنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑی چیز بنیاد اختلاف ہو سکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کی اُنہیں دعوت دیتے اور اس کے نہ ماننے پر انہیٓں کافر قرار دیتے یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا، وہ تمام اُن کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہل کتاب کے پاس موجود تھیں اور پھر اُس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمدﷺ پر بازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بتانا اہل کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں، اس کی طرف سے جو احکام وہدیات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر تسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں، ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں ہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اُسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں، قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصاً اہل کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہوالبقرہ آیات ۱۳۶۔۴ ۱۷۷۔۲۸۵۔ آل عمران آیت ۸۴۔ النساء ۱۳۶۔۱۵۰ تا ۱۶۲۔۱۵۲ تا ۱۶۴۔ الشوی ۱۳۔ |
3 | یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے، اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔ |
2 | یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے، مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخالف کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتاردے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا اعلاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہو جائے، یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے، مثلاً:
اُدعُ اِلٰی سَبِیلِ رَبِکَ بِا لحِکمَتَہ دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو
وَالمَو عِظَتِہ الحَسَنَتِہ وَجَادِ لہُم بِالَتِی ھِیَ اَحسَنُ۔ (الخل۔ آیت ۱۲۵)۔ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
وَلَا تَستَوِی الحَسَنَتُہ وَ لَا السَیِتُہ اَدفَع بِا لِتِی ھِیَ اَحسَنُ فَاِ ذَا الَذِی بَینَکَ وَ بَیُنَھ عَدَاوَۃٌ کَاَ نَھ وَلِیٌ حَمِیمٌ ْ (حم السجدہ۔ آیت ۳۴)۔
بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گم جوش دوست ہے۔
اِدفَع بِاَ لَتِی ھِیَ اَحسَنُ التَبِیِتَہ نَحنُ اَعلَمُ بِمَا یَصِفُونَ ْ (المومنون۔ آیت ۹۶)۔
تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں۔
خُذِاعَفوَوَاُمُ بِاَ لعُرفِ وَاَعِرض عَِن الجَا ھِلِنَ ْ وَاِ مَا یَنذَ غَنَکَ مِنَ الشَیطِٰن نَذغٌ فَا ستَعِذ بِاَ للہِ۔ (الاعراف۔ آیات ۱۹۹۔۲۰۰)۔
درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر ( ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔
|
1 | واضح رہے کہ آگے چل کر اسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اُس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جا سکتے تھے۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں۔ |