Ayats Found (11)
Surah 3 : Ayat 179
مَّا كَانَ ٱللَّهُ لِيَذَرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ ٱلْخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۚ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو1 وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے2 غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا
2 | یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھُل جائے گا |
1 | یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہلِ ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں |
Surah 4 : Ayat 136
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ ءَامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلَّذِى نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِن قَبْلُۚ وَمَن يَكْفُرْ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلاَۢ بَعِيدًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ1 اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا
1 | ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لا ؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہواہے۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اُسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دُشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اُس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اُن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دُوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں |
Surah 4 : Ayat 170
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلرَّسُولُ بِٱلْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَـَٔـامِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْۚ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی
Surah 7 : Ayat 158
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اے محمدؐ، کہو کہ 1"اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
1 | اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے |
Surah 10 : Ayat 104
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى شَكٍّ مِّن دِينِى فَلَآ أَعْبُدُ ٱلَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنْ أَعْبُدُ ٱللَّهَ ٱلَّذِى يَتَوَفَّـٰكُمْۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اے نبیؐ!1 کہہ دو کہ لوگو، اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اسی خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے2 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں
2 | متن میں لفظ یَتَوَفّٰکُم ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے’’جوتمہیں موت دیتا ہے‘‘۔لیکین اس لفظی ترجمے سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی۔اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ ’’وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے،جو تم پرایسامکمل حاکمانہ اقتدار رکھتاہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہواور جس وقت اس کا اشارہ ہوجائے اسی آن تمہیں اپنی جان اُس جان آفرین کے حوالے کردینی پڑتی ہے،میں صرف اُسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کا قائل ہوں۔‘‘یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکین مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہرقسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے،اس پرکسی دوسرے کا قابو نہیں ہے۔حتی کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹیھراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے۔پس بیان مدعا کے لیےاللہ تعالٰی کی بےشمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ ’’وہ جو تمہیں موت دیتا ہے‘‘یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہےکہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے۔یعنی سب کو چھوڑ کرمیں اُس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے۔اوراس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی و موت پر بھی اقتدار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں۔پھر کہاں بلاغت یہ ہے کہ’’وہ مجھے موت دینے والا ہے‘‘کہنے کے بجائے’’وہ جو تمہیں موت دیتا ہے‘‘فرمایا۔اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدعا،دلیل مدعا،اور دعوت الی لہدعٰی،تینوں فائدے جمع کردیے گئے ہیں۔اگر یہ فرمایا جاتا کہ’’میں اس کی بندگی کرتاہوں جو مجھے موت دینےوالا ہے‘‘تواس سے صرف یہی معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں،تم کو بھی اُسی کی بندگی کرنی چاہیے اور تم یہ غلطی کررہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو۔ |
1 | جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریرکو ختم کیا جارہا ہے۔تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھرایک نظر ڈال لی جائے۔ |
Surah 48 : Ayat 9
لِّتُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو1
1 | بعض مفسرین جے تُعَزِّ رُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کا ساتھ دو، اسکی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہے‘‘۔ صبح و شام تسبیح کرنےسے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے |
Surah 57 : Ayat 7
ءَامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَأَنفِقُواْ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِۖ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمْ وَأَنفَقُواْ لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول1 پر اور خرچ کرو2 اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے3 جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے4 ان کے لیے بڑا اجر ہے
4 | یہاں پھر جہاد میں مال خرچ کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا اور اخلاص فی الایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے ۔ بالفاظ دیگر، گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقی اور مخلص مومن وہی ہے جو ایسے موقع پر مال صرف کرنے سے جی نہ چراۓ |
3 | اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ الہ کا بخشا ہوا مال ہے ۔ تم بذاتِ خود اس کے مال نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے ۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چراۓ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے ۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت ایسا آۓ گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے ۔ اس عارضی جانشینی کی تھوڑی سی مدت میں ، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے ، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حال ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لاۓ تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفُھا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا’’ فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ’’ ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ فرمایا اَنْتَسَدَّ قَ وا نت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأ مَلُ الغِنیٰ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفالان کذا ولفالن کذا وقد کان لفالن۔’’ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کس کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جاۓ اور یہ لفاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ، او تصدیقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰ لک فذا ھب و تارکہ للناس۔ ’’آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ‘‘ (مسلم) |
2 | اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیت نمبر 10 کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو بلند کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں برپا تھی۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک، جنگی ضروریات۔ دوسرے ، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آۓ تھے اور آ رہے تھے ۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات 10۔12۔18۔اور 18 میں دی گئی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو |
1 | یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے ، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنا حصہ ادا کرو، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہو گا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے ۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں نہ کہ انتہائی۔ اس لیے فحواۓ کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْ ابِا للہِ وِرَسْوْلِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گۓ ہو، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے |
Surah 57 : Ayat 8
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِۙ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُواْ بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَـٰقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے1 اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے2 اگر تم واقعی ماننے والے ہو
2 | بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتداۓ آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔ وَاذکُرُوْانِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْوَا ثَقَکُمْ بِہٖاِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیْم؍ٌ بَذاتِ الصُّدُورِ o (المائدہ۔ 7) یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ’’ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ’’ اور اللہ سے ڈروِ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔ حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ: بَا یَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی السمع و الطا عۃ فی النشاط والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیسُر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ (مسند احمد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سین گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے |
1 | یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسولؐ خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے |
Surah 57 : Ayat 28
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَءَامِنُواْ بِرَسُولِهِۦ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِۦ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِۦ وَيَغْفِرْ لَكُمْۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ1، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے2، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا3، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے
3 | یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرماۓ گا، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوۓ تھے |
2 | یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرماۓ گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت 12 میں گزر چکا ہے |
1 | اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہاتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لاۓ ہوۓ تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا، ایک اجر ایمان بر عیٰسی کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمدؐ کا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات 52 تا 54 کرتی ہیں اور مزید بر آں اس کی تائید حضرت ابو موسٰی اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ان میں سے ایک ہے رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمدؐ، ’’ اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر بھی ایمان لے آیا ‘‘ (بخاری و مسلم)۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت 37 کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوۓ تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں |
Surah 64 : Ayat 8
فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلنُّورِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلْنَاۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
پس ایمان لاؤ اللہ پر، اور اُس کے رسول پر، اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے1 جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
1 | یعنی جب یہ واقعہ ہے اور پوری انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کی تباہی کا اصل موجب ان کا رسولوں کی بات نہ ماننا اور آخرت کا انکار کرنا تھا، تو اسی غلط روش پر چل کر اپنی شامت بلانے پر اصرار نہ کرو اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کی پیش کردہ ہدایت پر ایمان لے آؤ۔ یہاں سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ روشنی سے مراد قرآن ہے۔ جس طرح روشنی خود نمایاں ہوتی ہے اور گردو پیش کی ان تمام چیزوں کو نمایاں کر دیتی ہے جو پہلے تاریکی میں چھپی ہوئی تھیں، اسی طرح قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا بر حق ہونا بجاۓ خود روشن ہے، اور اس کی روشنی میں انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم و عقل کافی نہیں۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر و عمل کی بے شمار پر پیچ راہوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراط مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں کی طرف لے جانے والی پگ ڈنڈیاں کدھر کدھر جا رہی ہیں اور ہلاکت کے گڑھے کہاں کہاں آ رہے ہیں اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے |