Ayats Found (58)
Surah 2 : Ayat 79
فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ ٱلْكِتَـٰبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ ٱللَّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلاًۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں1 ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت
1 | یہ اُن کے علما کے متعلق ارشاد ہو رہا ہے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الہٰی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائیبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الہٰی کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفَسِّر کی تاویل، ہر مُتَکلِّم کا الہٰیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد ، جس نے مجمُوعہٴ کتبِ مقدّسہ (بائیبل) میں جگہ پالی، اللہ کا قَول(Word of God ) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہو گیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہو گئے |
Surah 2 : Ayat 81
بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَـٰطَتْ بِهِۦ خَطِيٓــَٔتُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا
Surah 2 : Ayat 134
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے1
1 | یعنی اگرچہ تم اُن کی اولاد سہی، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُن کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم اُن کے طریقے سے پھر گئے۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ اُنہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کما ؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے،“ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضِ کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ وہی نتیجہ ہماری کمائِ ہے۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے |
Surah 2 : Ayat 141
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا"
Surah 2 : Ayat 202
أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُواْۚ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی
Surah 2 : Ayat 225
لَّا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا1، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی باز پرس وہ ضرور کرے گا اللہ بہت در گزر کرنے والا اور بردبار ہے
1 | یعنی بطور تکیہ کلام کے بلا ارادہ جو قسمیں زبان سے نکل جاتی ہیں، ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ ان پر مواخذہ ہو گا |
Surah 2 : Ayat 267
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِۖ وَلَا تَيَمَّمُواْ ٱلْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِـَٔـاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے1
1 | ظاہر ہے کہ جو خود اعلیٰ درجہ کی صفات سے متّصف ہو، وہ بُرے اوصاف رکھنے والوں کو پسند نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فیاض ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشش وعطا کے دریا بہا رہا ہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ وہ تنگ نظر، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں سے محبت کرے |
Surah 2 : Ayat 281
وَٱتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى ٱللَّهِۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا
Surah 2 : Ayat 286
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ وَٱعْفُ عَنَّا وَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَآۚ أَنتَ مَوْلَـٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا1 ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے2 (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے 3پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ،4 ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر5
5 | اس دُعا کی پوری رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے، اور صرف مکّہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہٴ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں صمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے، اور دُوسری طرف اُس دُعا کی دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے، اور دُوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے، جن سے یہ دُعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی |
4 | یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال ، جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پُورے اُتر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوتِ برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہَ حق سے ڈگمگا جائیں |
3 | یعنی ہمارے پیش رووں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں ، جن زبردست ابتلا ؤ ں سے وہ گزرے، جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا، اُن سے ہمیں بچا۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے ، اُسے سخت ازمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اورجب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دُعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے |
2 | “یہ اللہ کے قانونِ مجازات کا دُوسرا قاعدہٴ کلیہ ہے۔ ہر آدمی انعام اُسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دُوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصُور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصُور میں دُوسرا پکڑا جائے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں ۔ اور ایک دُوسرے شخص نے کسی بُرائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالمِ اوّل کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا بُرا، جو کچھ بھی پھل ہوگا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بِھلائی یا جس بُرائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصّہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مِل جائے۔ مکافاتِ عمل کو ئی قابل انتقال چیز نہیں ہے |
1 | یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہر گز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تُو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے موٴ اخذہ کرے کہ تُو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا |
Surah 3 : Ayat 25
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَـٰهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
مگر کیا بنے گی اُن پر جب ہم انہیں اُس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دے دیا جائیگا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا