Ayats Found (4)
Surah 10 : Ayat 96
إِنَّ ٱلَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے
Surah 10 : Ayat 97
وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءَايَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُاْ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ
وہ کبھی ایمان لا کر نہیں دیتے جب تک کہ درد ناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں
Surah 10 : Ayat 99
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَأَمَنَ مَن فِى ٱلْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًاۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ ٱلنَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ
اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے1 پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟2
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اوراللہ تعالٰی آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔دراصل اس فقرے میں وہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتاہے،کہ خطاب بظاہرتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگراصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کافرق کھول کر رکھ دینے اور راہ راست صاف صاف دکھا دینے کو جو حق تھاوہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کردیا ہے۔اب اگر تم خود راست رو بننا نہیں چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پرآنا صرف اسی پرموقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبردستی راہ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ایسا جبری ایمان اگراللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی،یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کرسکتا تھا۔ |
1 | یعنی اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کہ اس کی زمین میں صرف اطاعت گزاروفرمانبردار ہی بسیں اور کفرونافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہوتو اس کےلیے نہ یہ مشکل تھا کہ وہ تمام اہل زمین کو مومن ومطیع پیدا کرتا اور نہ یہی مشکل تھا کہ سب کے دل اپنے ایک ہی تکوینی اشارے سے ایمان و اطاعت کی طرف پھیردیتا۔مگر نوع انسانی کے پیدا کرنے میں جو حکیمانہ غرض اس کے پیش نظر ہے وہ اس تخلیقی و تکوینی جبرکےاستمعال سے فوت ہو جاتی ہے۔اس لیے اللہ تعالٰی خود ہی انسانوں کو ایمان لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔ |
Surah 10 : Ayat 100
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ وَيَجْعَلُ ٱلرِّجْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا1، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے2
2 | یہاں صاف بتادیا گیا کہ اللہ کا اذن اوراس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کردیا۔بلکہ اس کاایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے،اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بےلاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کردیے جاتے ہیں،اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں،یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے،تو اُن کے لیے اللہ کے خزانہ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی وغلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔ |
1 | یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے،اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پرمنحصر ہے۔کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پاسکتا ہے،اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہےکہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کردے۔پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تونہیں بنا سکتا۔اس کے لیے اللہ کااذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔ |