Ayats Found (2)
Surah 4 : Ayat 78
أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ ٱلْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِى بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـٰذِهِۦ مِنْ عِندِ ٱللَّهِۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـٰذِهِۦ مِنْ عِندِكَۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِۖ فَمَالِ هَـٰٓؤُلَآءِ ٱلْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے1 کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی
1 | یعنی جب فتح و ظفر اور کامیابی و سُر خروئی نصیب ہو تی ہے تو اسے اللہ فضل قرار دیتے ہیں اور بھُول جاتے ہیں کہ اللہ نے ان پر یہ فضل نبی ہی کے ذریعہ سے فرمایا ہے ۔ مگر جب خود اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے سبب سے کہیں شکست ہوتی ہے اور بڑھتے ہوئے قدم پیچھے پڑنے لگتے ہیں تو سارا الزام نبی کے سر تھوپتے ہیں اور خود بَری الذّمّہ ہونا چاہتے ہیں |
Surah 64 : Ayat 11
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُۥۚ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
کوئی 1مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے2 جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے3، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے4
4 | اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کو4ئی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا |
3 | یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، یا دنیوی طاقتوں کو ان کےسامنے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے۔ ہر کمینی حرکت کر سکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے، اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جاۓ، یا باطل کے آگے سر جھکا دے، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکارہو رہ جاۓ یا اس سے بخیریت گزر جاۓ، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن، لا یقیضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ، ان اصا بتْہ ضَرّاء صؓر، فکان خیراً لہٗ، وان اصابَتہ سرّاء شکر، فکان خیراً الہ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ خوشحالی میسر آۓ تو شکر کرتا ہے، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی |
2 | یہ مضمون سورہ الحدید، آیات 22۔ 23 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر 39 تا 42 میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آ جاتے ہیں، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے |
1 | اب روۓ سخن اہل ایمان کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوۓ یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گۓ تھے۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعداۓ اسلام ان کے درپے آزاد ہو گۓ تھے |