Ayats Found (4)
Surah 15 : Ayat 21
وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَآئِنُهُۥ وَمَا نُنَزِّلُهُۥٓ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ
کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں1
1 | یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے ۔ ہوا، پانی ، روشنی ، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہر چیز ، ہر نوع ، ہر جنس ، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن ، یہ اعتدال ، اور یہ تناسب نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا |
Surah 54 : Ayat 49
إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍ
ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے1
1 | یعنی دنیا کی کوئی چیز بھی اَلَل ٹپ نہیں پیدا کر دی گئی ہے ، بلکہ ہر چیز کی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق وہ ایک مقرر وقت پر بنتی ہے ، ایک خاص شکل اختیار کرتی ہے ، ایک خاص حد تک نشو نما پاتی ہے ، ایک خاص مدت تک باقی رہتی ہے ، اور ایک خاص وقت پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی عالمگیر ضابطہ کے مطابق خود اس دنیا کی بھی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق ایک وقت خاص تک یہ چل رہی ہے اور ایک وقت خاص ہی پر اسے ختم ہونا ہے ۔ جو وقت اس کے خاتمہ کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے نہ اس سے ایک گھڑی پہلے یہ ختم ہو گی، نہ اس کے ایک گھڑی بعد یہ باقی رہے گی۔ یہ نہ ازلی و ابدی ہے کہ ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ قائم رہے ۔ اور نہ کسی بچے کا کھلونا ہے کہ جب تم کہو اسی وقت وہ اسے توڑ پھوڑ کر دکھا دے |
Surah 65 : Ayat 3
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ بَـٰلِغُ أَمْرِهِۦۚ قَدْ جَعَلَ ٱللَّهُ لِكُلِّ شَىْءٍ قَدْرًا
اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو 1جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے2 اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے
2 | یعنی کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے |
1 | مراد یہ ہے کہ عدت کے دوران میں مطلقہ بیوی کو گھر میں رکھنا، اس کا خرچ برداشت کرنا، اور رخصت کرتے ہوۓ اس کو مہر یا متعہ طلاق دے کر رخصت کرنا بلا شبہ آدمی پر مالی بار ڈالتا ہے ۔ جس عورت سے آدمی دل برداشتہ ہو کر تعلقات منقطع کر لینے پر آمادہ ہو چکا ہو، اس پر مال خرچ کرنا تو اسے ضرور ناگوار ہو گا۔ اور اگر آدمی تنگ دست بھی ہو تو یہ خرچ اسے اور زیادہ کھلے گا۔ لیکن اللہ سے ڈرنے والے آدمی کو یہ سب کچھ برداشت کرنا چاہیے ۔ تمہارا دل تنگ ہو تو ہو، اللہ کا ہاتھ رزق دینے کے لیے تنگ نہیں ہے ۔ اس کی ہدایت پر چل کر مال خرچ کرو گے تو وہ ایسے راستوں سے تمہیں رزق دے گا جدھر سے رزق ملنے کا تم گمان بھی نہیں کرسکتے |
Surah 87 : Ayat 3
وَٱلَّذِى قَدَّرَ فَهَدَىٰ
جس نے تقدیر بنائی1 پھر راہ دکھائی2
2 | یعنی کسی چیز کو بھی محض پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ جو چیز بھی جس کام کے لیے پیدا کی اسے اس کام کے انجام دینے کا طریقہ بتایا۔ بالفاظ دیگر وہ محض خالق ہی نہیں ہے، ھادی بھی ہے۔ اس نے یہ ذمہ لیا ہے کہ جو چیز جس حیثیت میں اس نے پیدا کی ہے اس کو ویسی ہی ہدایت دے جس کے وہ لائق ہے اور اسی طریقہ سے ہدایت دے جو اس کے لیے موزوں ہے۔ ایک قسم کی ہدایت زمین اور چاند سورج اور تاروں اور سیاروں کے لیے ہے جس پر وہ سب چل رہے ہیں اور اپنے حصے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور قسم کی ہدایت پانی اور ہوا اور روشنی اور جمادات و معدنیات کے لیے ہے جس کے مطابق وہ ٹھیک ٹھیک وہی خدمات بجا لا رہے ہیں جن کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت نباتات کے لیے ہے جس کی پیروی میں وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں نکالتے اور پھیلاتے ہیں، اس کی تہوں سے پھوٹ کر نکلتے ہیں، جہاں جہاں اللہ نے ان کے لیے غذا پیدا کی ہے وہاں سے اس کو حاصل کرتے ہیں، تنے شاخیں، پتیاں، پھل پھول لاتے ہیں اور وہ کام پورا کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت خشکی، تری اور ہوا کے حیوانات کی بے شمار انواع اور ان کے ہر فرد کے لیے ہے جس کی حیرت انگیز مظاہر جانوروں کی زندگی اور ان کے کاموں میں علانیہ نظر آتے ہیں ، حتی کہ ایک دہر یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو کوئی ایسا الہامی علم حاصل ہے جو انسان کو اپنے حواس تو درکنار، اپنے آلات کے ذریعہ سے بھی حاصل نہیں ہو تا۔ پھر انسان کے لیے دو الگ الگ نوعیتوں کی ہدایتیں ہیں جو اس کی دو الگ حیثیتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ایک وہ ہدایت جو اس کی حیوانی زندگی کے لیے ہے، جس کی بدولت ہر بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینا سیکھ لیتا ہے، جس کے مطابق انسان کی آنکھ، ناک، کان، دماغ، پھیپھڑے، گردے، جگر، معدہ، آنتیں، اعصاب، رگیں اور شریانیں، سب اپنا اپنا کام کیے جا رہے ہیں بغیر اس کے کہ انسان کو اس کا شعور ہو یا اس کے ارادے کا ان اعضاء کے کاموں میں کوئی دخل ہو۔ یہی ہدایت ہے جس کے تحت انسان کے ا ندر بچپن ، بلوغ، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے وہ سب جسمانی اور ذہنی تغیرات ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس کے ا رادے اور مرضی، بلکہ شعور کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ دوسری ہدایت انسان کی عقلی اور شعوری زندگی کے لیے ہے جس کی نوعیت غیر شعوری زندگی کی ہدایت سے قطعاً مختلف ہے، کیونکہ اس شعبہ حیات میں انسان کی طرف ایک قسم کا اختیار منتقل کیا گیا ہے جس کے لیے ہدایت کا وہ طریقہ موزوں نہیں ہے جو بے اختیارانہ زندگی کے لیے موزوں ہے۔ انسان اس آخری قسم کی ہدایت سے منہ موڑنے کے لیے خواہ کتنی ہی حجت بازیاں کرے، لیکن یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے کہ جس خالق نے اس ساری کائنات میں ہر چیز کے لیے اس کی ساخت اور حیثیت کے مطابق ہدایت کا انتظام کیا ہے اس نے انسان کے لیے یہ تقدیر تو بنا دی ہو گی کہ وہ اس کی دنیا میں اپنے اختیار سے تصرفات کرے مگر اس کو یہ بتانے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو گا کہ اس اختیار کے استعمال کی صحیح صورت کیا ہے اور غلط صورت کیا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل ، حواشی 9۔10۔14۔56۔ جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 23۔ جلد پنجم۔ الرحمن، حواشی 2۔3۔ جلد ششم، الدھر، حاشیہ 5) |
1 | یعنی ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کر دیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اس کام کے لیے اس کی مقدار کیا ہو، اس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقاء اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کس وقت وہ وجود میں آئے ، کب تک ا پنے حصے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہو جائے۔ اس پوری اسکیم کا مجموعی نام اس کی ’’تقدیر‘‘ہے، اور یہ تقدیر اللہ تعالٰی نے کائنات کی ہر چیز کے لیے ا ور مجموعی طور پر پوری کائنات کے لیے بنائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق کسی پیشگی منصوبے کے بغیر کچھ یونہی الل ٹپ نہیں ہو گئی ہے بلکہ اس کے لیے ایک پورا منصوبہ خالق کے پیش نظر تھا اور سب کچھ اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر ، حواشی 13۔14۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ 8۔ جلد پنجم، القمر حاشیہ 25۔ جلد ششم، عبس، حاشیہ 12) |