Ayats Found (11)
Surah 3 : Ayat 26
قُلِ ٱللَّهُمَّ مَـٰلِكَ ٱلْمُلْكِ تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
Surah 3 : Ayat 73
وَلَا تُؤْمِنُوٓاْ إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ ٱلْهُدَىٰ هُدَى ٱللَّهِ أَن يُؤْتَىٰٓ أَحَدٌ مِّثْلَ مَآ أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَآجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْۗ قُلْ إِنَّ ٱلْفَضْلَ بِيَدِ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ، 1"اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجت مل جائے" اے نبیؐ! ان سے کہو کہ، "فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے2
2 | یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ کون فضل و شرف کا مستحق ہے |
1 | اصل میں لفظ”واسِع“ استعمال ہوا ہے جو بالعموم قرآن میں تین مواقع پر آیا کرتا ہے۔ ایک وہ موقع جہاں انسانوں کے کسی گروہ کی تنگ خیالی و تنگ نظری کا ذکر آتا ہے اور اُسے اس حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اللہ تمہاری طرح تنگ نظر نہیں ہے ۔ دُوسرا وہ موقع جہاں کسی کے بُخل اور تنگ دلی اور کم حوصلگی پر ملامت کرتے ہوئے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ فراخ دست ہے، تمہاری طرح بخیل نہیں ہے ۔ تیسرا وہ موقع جہاں لوگ اپنے تخیّل کی تنگی کے سبب سے اللہ کی طرف کسی قسم کی محدُود یّت منسُوب کرتے ہیں اور انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ غیر محدُود ہے۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ١١٦) |
Surah 5 : Ayat 64
وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَـٰنًا وَكُفْرًاۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٲوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًاۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں1 باندھے گئے ان کے ہاتھ2، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں3 اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے4، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
4 | یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے |
3 | یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں |
2 | یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں |
1 | عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں |
Surah 23 : Ayat 88
قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار1 کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟
1 | اصل میں لفظ مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں ملک (بادشاہی) اور ملک (مالکیت )، دونوں مفہوم شامل ہیں ، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کردہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز پر پورے پورے مالکانہ اختیارات کس کو حاصل ہیں |
Surah 36 : Ayat 71
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَآ أَنْعَـٰمًا فَهُمْ لَهَا مَـٰلِكُونَ
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں1 میں سے اِن کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں
1 | ’’ہاتھوں‘‘ کا لفظ اللہ تعالٰی کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے۔بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالٰی نے خود بنایا ہے،ان کی تخلیق میں کسے دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 83
فَسُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے
Surah 38 : Ayat 75
قَالَ يَـٰٓإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ ٱلْعَالِينَ
رب نے فرمایا 1"اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟"
1 | یہ الفاظ تخلیق انسانی کے شرف پر دلالت کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔بادشاہ کا اپنے خدّام سے کوئی کام کرانا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک معمولی کام تھا جو خدّام سے کرا لیا گیا۔ بخلاف اس کے بادشاہ کا کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک افضل و اشرف کام تھا۔ پس اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جسے میں نے خود بلاواسطہ بنایا ہے اس کے آگے جھکنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ ’’دونوں ہاتھوں‘‘ کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالٰی کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے۔دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا۔ |
Surah 48 : Ayat 10
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے1 وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا 2اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے3، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا
3 | اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجاۓ عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ہ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے ٓسلی اعراب کو باقی رکھنا وفاۓ عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے |
2 | یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی |
1 | اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمانؓ کے شہید ہو جانے کی خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پرلی تھی ۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علیٰ الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمرجابر بن عبد اللہ اور معقِل بن یسار سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ نے رسول پاکؐ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید ہو چکے ہیں یا زندہ ہیں ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایاس ۔ حضورؐ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقیناً بیعت کرتے |
Surah 49 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُقَدِّمُواْ بَيْنَ يَدَىِ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو1 اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے2
2 | یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کو روش اختیار کی یا اپنی راۓ اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے |
1 | یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی راۓ اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر اقدام رکھے یا معاملات میں آزادانہ راۓ قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے لانے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو‘‘، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہی۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیشقدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ کے مطابق۔ آپؐ پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟ انہوں نے کہا سنت رسول اللہ کیا طرف آپ نے فرمایا اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا پھر میں خود اجتہاد کروں گا۔ اس پر حضورؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ علیہ و سلم کی سنت۔ پوری امّت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا کہ ِافرادِ امّت کا قیاس و اجتہاد |
Surah 51 : Ayat 47
وَٱلسَّمَآءَ بَنَيْنَـٰهَا بِأَيْيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
آسمان کو1 ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں2
2 | اصل الفاظ ہیں وَاِنَّا لَمُوْ سِعُوْنَ۔ موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں اور وسیع کرنے والے کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے زور سے بنایا ہے اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آ گیا کہ ہم تمہیں دو بارہ پیدا نہ کر سیکیں گے؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گۓ ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نۓ نۓ کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے؟ |
1 | آخرت کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر اسی کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں |