Ayats Found (1)
Surah 60 : Ayat 12
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِٱللَّهِ شَيْــًٔا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَـٰنٍ يَفْتَرِينَهُۥ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِى مَعْرُوفٍۙ فَبَايِعْهُنَّ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُنَّ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبیؐ، جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں1 اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں2 گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی3، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی4، اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں5 گی، تو ان سے بیعت لے6 لو اور اُن کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے
6 | معتبر اور متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ مردوں کی بیعت سے مختلف تھا۔ مردوں سے بیعت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتے تھے۔ لیکن عورتوں سے بیعت لینے ہوۓ آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، بلکہ مختلف دوسرے طریقے اختیار فرماۓ۔ اس کے بارے میں جو روایات منقول ہوئی ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ خدا کی قسم بیعت میں حضور کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے چھوا تک نہیں ہے۔ آپ عورت سے بیعت لیتے ہوۓ بس زبان مبارک سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تجھ سے بیعت لی‘‘ (بخاری۔ ابن جریر)۔ امیہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں اور چند عورتیں حضور کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں اور آپؐ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا۔ جب ہم نے کہا ’’ ہم معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی‘‘ تو آپ نے فرمایا فیما استطعتنَّ، ‘‘ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اور تمہارے لیے ممکن ہو‘‘ ہم نے عرض کیا‘‘ اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے خود ہم سے بڑھ کر رحیم ہیں ‘‘ پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہاتھ بڑھا یۓ تاکہ ہم آپ سے بیعت کریں۔ آپ نے فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، بس میں تم سے عہد لوں گا۔ چنانچہ آپ نے عہد لے لیا۔ ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ آپؐ نے ہم میں سے کسی عورت سے بھی مصافحہ نہیں کیا (مسند احمد، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی کی روایت نقل کی ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ایک چادر حضور کی طرف بڑھائی گئی آپ نے جس اسے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ یہ مضمون ابن ابی حاتم نے شعبی سے، عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی سے اور سعید بن منصور نے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے۔ ابن اسحاق نے مغازی میں ابان بن صالح سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ پانی کے ایک برتن میں ہاتھ ڈال دیتے تھے، اور پھر اسی برتن میں عورت بھی اپنا ہاتھ ڈال دیتی تھی۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ عید کا خطبہ دینے کے بعد آپ مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوۓ اس مقام پر تشریف لے گۓ جہاں عورت بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے وہاں اپنی تقریر میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی، پھر عورتوں سے پوچھا تم اس کا عہد کرتی ہو؟ مجمع میں سے ایک عورت نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ۔ ایک روایت میں جسے ابن حبان، ابن جریر اور بزار وغیرہ نے نقل کیا ہے، ام عطیہ انصار یہ کاس یہ بیان ملتا ہے کہ ’’ حضورؐ نے گھر کے باہر سے ہاتھ بڑھایا اور ہم نے اندر سے ہاتھ بڑھاۓ‘‘، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا یہ عورتوں نے آپ سے مصافحہ بھی کیا ہو، کیونکہ حضرت ام عطیہ نے مصافحہ کی تصریح نہیں کی ہے۔ غالباً اس موقع پر صورت یہ رہی ہوگی کہ عہد لیتے وقت آپ نے باہ سے ہاتھ بڑھایا ہوگا اور اندر سے عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیے ہوں گے بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے مس ہو |
5 | اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گۓ ہیں : پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے، حالانکہ حضورؐ کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی مجکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جاۓ جو قانون خداوندی کے خلاف ہو۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لاگاعۃ فی معصیۃ اللہ، انما الطاعۃ فیالمعروف۔ ’’ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف معروف میں ہے ‘‘ (مسلم، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جاۓ‘‘ (ابن جریر)۔ امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالٰی کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوۓ معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جاۓ جب کہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالٰی اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ‘‘ (احکام القرآن) علامہ آلوسی فرماتے ہیں : ’’ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولیالامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے۔ اللہ تعالٰی نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خیر دار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ‘‘ (روح المعانی)۔ پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا سنگ بنیاد ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے۔ دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے ہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام بیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسل کے احکام کی اطاعت کی جاۓ گی۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق، وہ بڑی بڑی بُرائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کر و گی بلکہ صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ ’’ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘ یا یہ کہ ’’ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ ’’ جس بیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی‘‘ تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضورؐ کو وسیع ترین اختیارات دیے گۓ ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں۔ اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت لیتے ہوۓ ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں : ابن عباسؓ، ام سلمہؓ اور ام عطیہؓ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی۔ یہ روایات بخاری، مسلم،نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں۔ ابن عباسؓ کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضورؐ نے حضرت عمرؓ کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوۓ کپڑے پھاڑتی تھیں، منہ نوچتی تھیں، بال کاٹری تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں (ابن جریر)۔ زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ ہو مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوۓ اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں (ابن جریر)۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں۔ قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضورؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے ہیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضورؐ کا یہ رشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے چہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں (یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں )۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہؓ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے اسے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا مسند احمد، ابن جریر)۔ حضورؐ کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتے ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششنازواجکن ’’ اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا‘‘ جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جاکر حضورؐ سے پوچھو شوہروں سے دھکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جاکر پوچھا تو آپؐ نے فرمایا تاخص مالہ فتحابی بہ غیرہ ’’یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹاۓ‘‘ (مسند احمد)۔ ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا(ابن جریر)۔ جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجاۓ حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیۓ وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضورؐ کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟ آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جاۓ جس کا حکم اس نے دیا ہے؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حشر، حاشیہ 15) |
4 | اس سے دو قسم کے بہتان مراد ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دوسری عورتوں پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگاۓ اور اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلاۓ، کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت بچہ تو کسی کا جنے اور شوہر کو یقین دلاۓ کہ تیرا ہی ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جو عورت کسی خاندان میں کوئی ایسا بچہ گھسا لاۓ جو اس خاندان کا نہیں ہے اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہ کرے گا |
3 | اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے، خواہ وہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا |
2 | مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبنہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوۓ حضورؐ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں، مگر بس معروف کی حد تک۔ یعنی جس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو (احکام القرآن، ابن عربی) |
1 | جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضورؐ سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے۔ آپ نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمرؓ کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں (ابن جریر بروایت ابن عباس۔ ابن ابی حاتم بروایت قتادہ)۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے جا کر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمرؓ کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا (ابن جریر، ابن مردویہ، بزار، ابن حبان، بروایت ام عطیہ انصاریہ )۔ عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گۓ اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کر کے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں (بخاری، بروایت ابن عباس)۔، ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے |