Ayats Found (6)
Surah 5 : Ayat 116
وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَـٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ءَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِۖ قَالَ سُبْحَـٰنَكَ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُۥ فَقَدْ عَلِمْتَهُۥۚ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلَآ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـٰمُ ٱلْغُيُوبِ
غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ 1"اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں
1 | عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور رُوح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسیح کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبُود بنا ڈالا۔ حضرت مریم علیہا السّلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دُنیا اس تخیّل سے بالکل نا آشنا تھی۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دَور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ”اُمّ اللہ“ یا ” مادرِ خدا“ کے الفاظ استعمال کیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّت ِ مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ لیکن اوّل اوّل چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا۔ پھر جب نَسطُور یَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جُداگانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دُنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ۴۳۱ ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ”مادرِ خدا“ کا لقب استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتٰی کہ نزولِ قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہوگئے۔ ان کے مجسّمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جُملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے، انہی سے دُعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس، حاجت روا، مشکل کشا اوربکسیوں کی پشتیبان تھیں، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعۂ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ” مادرِ خدا“ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم ؑ کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے۔ اس کا مشہوُر جنرل نرسیس میدانِ جنگ میں حضرت مریم ؑ سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر قیصر ہِرَ قْل نے اپنے جھنڈے پر ”مادرِ خدا“ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اُٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے |
Surah 6 : Ayat 12
قُل لِّمَن مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ قُل لِّلَّهِۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِۚ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کاہے؟کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے1، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کر لیا ہے وہ اسے نہیں مانتے
1 | یہ ایک لطیف اندازِ بیان ہے ۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انھیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے |
Surah 6 : Ayat 54
وَإِذَا جَآءَكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِـَٔـايَـٰتِنَا فَقُلْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَۖ أَنَّهُۥ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوٓءَۢا بِجَهَـٰلَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنۢ بَعْدِهِۦ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُۥ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو 1"تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے"
1 | جو لوگ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانۂ جاہلیّت میں بڑے بڑے گناہ ہو چکے تھے۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد اگرچہ ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں ، لیکن مخالفین ِ اسلام اُن کو سابق زندگی کے عُیُوب اور افعال کے طعنے دیتے تھے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اہلِ ایمان کو تسلّی دو۔ انہیں بتا ؤ کہ جو شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے اس کے پچھلے قُصُوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے |
Surah 20 : Ayat 41
وَٱصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِى
میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے
Surah 3 : Ayat 28
لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَـٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَـٰةًۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥۗ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے2
2 | یعنی کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نِکل جائے۔ انسان حد سے حد تمہاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمہیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے بچا ؤ کے لیے اگر بدرجہٴ مجبُوری کبھی کفار کے ساتھ تقیہ کرنا پڑے ، تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہیے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت کے مفاد اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کر لو۔ لیکن خبردار، کفر اور کفار کی کوئی ایس خدمت تمہارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہو نے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو یا اہلِ دین کی جماعت کو یا کسی ایک فردِ مومن کو بھی نقصان پہنچایا ، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی ، تو اللہ کے محاسبے سے ہر گز نہ بچ سکو گے۔ جانا تم کو بہرحال اسی کے پاس ہے |
Surah 3 : Ayat 30
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوٓءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُۥٓ أَمَدَۢا بَعِيدًاۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥۗ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلْعِبَادِ
وہ دن آنے والا ہے، جب ہر نفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا خواہ اُس نے بھلائی کی ہو یا برائی اس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا! اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے1
1 | سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :27 |