Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 115
وَلِلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے1 اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے2
2 | یعنی اللہ تعالٰی محدود،تنگ دل، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے ، جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویہء نظر اور دائرہٴ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے |
1 | یعنی اللہ نہ شرقی ہے، نہ غربی۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے، مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے، اب تم نے اس جگہ یا سمْت کو کیوں بدل دیا |
Surah 2 : Ayat 272
۞ لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَٮٰهُمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ ٱللَّهِۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی1
1 | ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہلِ حاجت کی مدد کرنے میں تامّل کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دُور کی گئی ہے۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں ہدایت اُتار دینے کی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہوچکے۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نُور عطا کرے یا نہ کرے۔ رہا دُنیوی مال و متاع سے اُن کی حاجتیں پُوری کرنا، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامّل نہ کرو کہ اُنہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا |
Surah 13 : Ayat 22
وَٱلَّذِينَ صَبَرُواْ ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِٱلْحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں2 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
2 | یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خوا ہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون اِن احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنو ا و ان اساؤا فلا تظلموا۔ ”تم اپنے طرز ِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ”جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر |
1 | یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الہٰی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے |
Surah 30 : Ayat 38
فَـَٔـاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)1 یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں2
2 | یہ مطلب نہیں ہےکہ فلاح صرف مسکین اورمسافراوررشتہ دارکاحق اداکردینےسےحاصل ہوجاتی ہے،اس کےعلاوہ اورکوئی چیز حصُول فلاح کےلیے درکارنہیں ہے۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ انسانوں میں سے جولوگ اِن حقوق کونہیں پہچانتےاورنہیں اداکرتےوہ فلاح پانے والےنہیں ہیں،بلکہ فلاح پانے والےوہ ہیں جوخالص اللہ کی خوشنودی کےلیےیہ حقوق پہچانتے اوراداکرتے ہیں۔ |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار،مسکین اورمسافرکوخیرات دے۔ارشادیہ ہُوا ہےکہ یہ اُس کا حق ہےجوتجھےدیناچاہیے،اورحق ہی سمجھ کرتواسےدے۔اس کودیتےہوئےیہ خیال تیرےدل میں نہ آنےپائےکہ یہ کوئی احسان ہےجوتواس پرکررہا ہے،اورتو کوئی بڑی ہستی ہےدان کرنے والی،اوروہ کوئی حقیرمخلوق ہےتیرادیاکھانے والی۔بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرےذہن نشین رہے کہ مال کےمالک حقیقی نے اگرتجھےزیادہ ہےاوردوسرے بندوں کوکم عطا فرمایا ہےتویہ زائد مال اُن دوسروں کاحق ہےجوتیری آزمائش کےلیے تیرےہاتھ میں دے دیاگیا ہےتاکہ تیرامالک دیکھے کہ توان کاحق پہچانتا اورپہنچاتا ہےیانہیں۔اس ارشاد الٰہی اوراس کی اصلی روح پرجوشخص بھی غورکرے گاوہ یہ محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتاکہ قرآن مجید انسان کےلیےاخلاقی وروحانی ارتقاءکاجوراستہ تجویزکرتا ہےاس کےلیےایک آزاد معاشرہ اورآزاد معیشت(Free Economy)کی موجودگی ناگزیرہے۔یہ ارتقاءکسی ایسےاجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کےحقوقِ ملکیت ساقط کردیےجائیں،ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اورافراد کےدرمیان تقسیم رزق کاپوراکاروبارحکومت کی مشینری سنبھال لے،حتٰی کہ نہ کوئی فرد اپنےاوپرکسی کاکوئی حق پہچان کردےسکے،اورنہ کوئی دوسرافردکسی سےکچھ لےکراس کےلیےاپنےدل میں کوئی جذبہ خیرسگالی پرورش کرسکے۔اس طرح کاخالص کمیونسٹ نظامِ تمّدن ومعیشت،جسےآج کل ہمارے ملک میں’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘کےپرفریب نام سےزبردستی قرآن کے سرمنڈھا جارہاہے،قرآن کی اپنی اسکیم کےبالکل خلاف ہے،کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کےنشوونمااورانفرادی سیرتوں کی تشکیل وترقی کادروازہ قطعًابند ہوجاتاہے۔قرآن کی اسکیم تواُسی جگہ چل سکتی ہےجہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کےمالک ہوں،اُن پرآزادانہ تصّرف کےاختیارات رکھتےہوں،اورپھراپنی رضاورغبت سےخدااوراس کےبندوں کےحقوق اخلاص کےساتھ اداکریں۔اِسی قسم کےمعاشرےمیں یہ امکان پیداہوتا ہےکہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم وشفقت،ایثاروقربانی اورحق شناسی وادائے حقوق کےاعلٰی اوصاف پیداہوں،اوردوسری طرف جن لوگوں کےساتھ بھلائی کی جائےان کےدلوں میں بھلائی کرنےوالوں کےلیےخیرخواہی،احسان مندی،اورجزاءالاحسان بالاحسان کےپاکیزہ جذبات نشوونماپائیں،یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیداہوجائےجس میں بدی کارُکنااورنیکی کافروغ پاناکسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پرموقوف نہ ہو،بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگئ نفس اوران کےاپنےنیک ارادےاس ذمہ داری کوسنبھال لیں۔ |
Surah 30 : Ayat 39
وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِىٓ أَمْوَٲلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُواْ عِندَ ٱللَّهِۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٲةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا1، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں2
2 | اس بڑھوتری کےلیے کوئی حدمقررنہیں ہے۔جتنی خالص نیت اورجتنےگہرے جذبہٴ ایثاراورجس قدرشدیدطلب رضائے الٰہی کےساتھ کوئی شخص راہِ خدامیں مال صرف کرےگااسی قدراللہ تعالٰی اس کا زیادہ سےزیادہ اجردےگا۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیاہےکہ اگرایک شخص راہِ خدامیں ایک کھجوربھی دےتواللہ تعالٰی اس کوبڑھاکراُحدپہاڑکےبرابرکردیتاہے۔ |
1 | قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہےجوسود کی مذمت میں نازل ہوئی۔اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ توسود یہ سمجھتے ہوئےدیتے ہوکہ جس کوہم یہ زائدمال دےرہےہیں اس کی دولت بڑھےگی،لیکن درحقیقت اللہ کےنزدیک سود سےدولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سےہوتی ہے۔آگےچل کرجب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کاحکم نازل کیاگیا تواس پرمزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمحَقُ اللہُ الّرِبٰووَ یُربِی الصَّدَقٰتِ،’’اللہ سود کامَٹھ ماردیتاہےاورصدقات کونشوونمادیتاہے‘‘۔(بعد کےاحکام کےلیےملاحظہ ہوآل عمران،آیت ۱۳۰۔البقرہ،آیت ۷۵ تا۲۸۱)۔اس آیت کی تفسیرمیں مفسرین کےدواقوال ہیں۔ایک گروہ کہتا ہےکہ یہاں ربٰوسےمرادوہ سود نہیں ہےجوشرعًاحرام کیاگیا ہے،بلکہ وہ عطیہ یاہدیہ وتحفہ ہےجواِس نیت سےدیاجائے کہ لینے والا بعد میں اس سےزیادہ واپس کرےگا،یامُعطی کےلیےکوئی مفید خدمت انجام دےگا،یااس کاخوشحال ہوجانامعطی کی اپنی ذات کےلیےنافع ہوگا۔یہ ابنِ عباسؓ،مجاہدؓ،ضحاکؓ،قتادہ،عِکرِمَہ،محمدبن کَعُب القَرظِی اورشعبِی کاقول ہے۔اورغالبًایہ تفسیراِن حضرات نےاس بناپرفرمائی ہےکہ آیت میں اِس فعل کانتیجہ صرف اتناہی بتایاگیاہےکہ اللہ کےہاں اس دولت کوکوئی افزائش نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اگرمعاملہ اُس سود کاہوتاجسےشریعت نےحرام کیاہےتومثبت طورپرفرمایاجاتا کہ اللہ کے ہاں اس پرسخت عذاب دیاجائےگا۔دوسراگروہ کہتاہےکہ نہیں اس سےمراد وہی معروف ربٰوہےجسےشریعت نےحرام کیا ہے۔یہ رائےحضرت حسن بصری اورسُدّی کی ہےاورعلامہ آلوسی کاخیال ہےکہ آیت کاظاہری مفہوم یہی ہے،کیونکہ عربی زبان میں ربٰوکالفظ اسی معنی کےلیےاستعمال ہوتاہے۔اسی تاویل کومفسرنیسابوری نےبھی اختیارکیاہے۔ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیرصحیح ہے،اس لیےکہ معروف معنی کوچھوڑنے کےلیےوہ دلیل کافی نہیں ہےجواوپرتفسیرِاول کےحق میں بیان ہوئی ہے۔سورہ روم کانزول جس زمانے میں ہوا ہےاُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کااعلان نہیں ہواتھا۔یہ اعلان اس کےکئی برس بعد ہُواہے۔قرآن مجید کاطریقہ یہ ہےکہ جس چیزکوبعدمیں کسی وقت حرام کرناہوتاہے،اس کےلیےوہ پہلےسےذہنوں کوتیارکرناشروع کردیتاہے۔شراب کےمعاملے میں بھی پہلےصرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے(النحل آیت ۶۷)پھرفرمایاکہ اس کاگناہ اس کےفائدےسےزیادہ ہے(البقرہ ۲۱۹)،پھرحکم دیاگیا کہ نشےکی حالت میں نمازکےقریب نہ جاؤ(النساء ۴۳)،پھراس کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا۔اسی طرح یہاں سود کےمتعلق صرف اتنا کہنےپراکتفاکیاگیاہےکہ یہ وہ چیزنہیں ہےجس سےدولت کی افزائش ہوتی ہو،بلکہ حقیقی افزائش زکٰوۃ سے ہوتی ہے۔اس کےبعد سود درسودکومنع کیاگیا(آل عمران،آیت ۱۳۰)۔اورسب سےآخرمیں بجائےخود سود ہی کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا(البقرہ،آیت ۵)۔ |
Surah 55 : Ayat 27
وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو ٱلْجَلَـٰلِ وَٱلْإِكْرَامِ
اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے
Surah 76 : Ayat 9
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورًا
(اور اُن سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ1
1 | ضروری نہیں ہے کہ غریب کو کھانا کھلاتے ہوئے زبان ہی سے یہ بات کہی جائے۔ دل میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے اور اللہ کے ہاں اس کی بھی وہی حیثیت ہے جو زبان سے کہنے کی ہے۔لیکن زبان سے یہ بات کہنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جس کی مدد کی جائے اس کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ہم اس سے کسی قسم کا شکریہ یا بدلہ نہیں چاہتے ، تاکہ وہ بے فکر ہو کر کھائے |
Surah 92 : Ayat 20
إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ ٱلْأَعْلَىٰ
وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے1
1 | یہ اس پرہیز گار آدمی کے خلوص کو مزید توضیح ہے کہ وہ ا پنا مال جن لوگوں پر صرف کرتا ہے ان کا کوئی احسان پہلے سے اس پر نہ تھا کہ وہ اس کا بدلہ چکانے کے لیے، یا آئندہ ان سے مزید فائدہ اٹھانے کے لیے ان کو ہدیے اور تحفے دے رہا ہو اور ان کی دعوتیں کر رہا، بلکہ وہ اپنے ربِ برتر کی رضا جوئی کے لیے ا یسے لوگوں کی مدد کر رہا ہے جن کا نہ پہلے اس پر کوئی احسان تھا، نہ آئندہ ان سے وہ کسی احسان کی توقع رکھتا ہے۔ اس کی بہترین مثال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ہے کہ ملکہ معظمہ میں جن بے کس غلاموں اور لونڈیوں نے اسلام قبول کیا تھا ا ور اس قصور میں جن کے مالک ان پر بے تحاشا ظلم توڑ رہے تھے ان کو خرید کر وہ آزاد کر دیتے تھے۔ تاکہ وہ ان کے ظلم سے بچ جا ئیں۔ ابن جریر اور ابن عساکر نے حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابو بکر کو اس طرح ان غریب غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرتے دیکھ کر ان کے والد نے ان سے کہا کہ بیٹا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کر رہے ہو۔ اگر مضبوط جوانوں کی آزادی پر تم یہی روپیہ خرچ کرتے تو وہ تمہارے قوت بازو بنتے۔ اس پر حضرت ابو بکر نے ان سے کہا ’’ای ابہ انما ارید ما عند اللہ‘‘، ’’ابا جان، میں تو وہ اجر چاہتا ہوں جو اللہ کے ہاں ہے |