Ayats Found (5)
Surah 49 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُقَدِّمُواْ بَيْنَ يَدَىِ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو1 اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے2
2 | یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کو روش اختیار کی یا اپنی راۓ اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے |
1 | یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی راۓ اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر اقدام رکھے یا معاملات میں آزادانہ راۓ قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے لانے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو‘‘، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہی۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیشقدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ کے مطابق۔ آپؐ پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟ انہوں نے کہا سنت رسول اللہ کیا طرف آپ نے فرمایا اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا پھر میں خود اجتہاد کروں گا۔ اس پر حضورؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ علیہ و سلم کی سنت۔ پوری امّت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا کہ ِافرادِ امّت کا قیاس و اجتہاد |
Surah 49 : Ayat 5
وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُواْ حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انہی کے لیے بہتر تھا1، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے2
2 | یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جاۓ تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرماۓ گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں |
1 | حضورؐ کے عہد مبارک میں جن لوگوں جے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بار ہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آ دھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپؐ کو پکارتے پھرتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوۓ لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجاۓ صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں |
Surah 59 : Ayat 7
مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْۚ وَمَآ ءَاتَـٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَـٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُواْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے1 ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے2 جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے3
3 | سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموالِ فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ ‘جو کچھ رسول تمہیں دے ‘ کے مقابلہ میں ‘جو کچھ نہ دے ‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرماۓ گۓ ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ‘جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ‘۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو ‘جو کچھ دے ‘ کے مقابلہ میں ‘ جو کچھ نہ دے ‘ فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ ‘جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔‘ (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوۓ کہا ‘ اللہ تعالٰی نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ‘ اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلمسنداحمد سُند ابن ابی حاتم) |
2 | یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اِسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کَفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جاۓ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع، دائرے میں پھیل جاۓ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جاۓ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدّات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرماۓ، مواشی، اموالِ تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پاے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے |
1 | پچھلی آیت میںصرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرماۓ تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ راۓ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہاۓ شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گۓ، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی راۓ وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی راۓ تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی راۓ کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف راۓ تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہۓ۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہۓ۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہاۓ حنفیہ کی راۓ یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفاۓ راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج 11،بی یوسف، صفحہ 9تا21) امام شافعی ؒ کی راۓ یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔ باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1مصالح مسلمین پر، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی راۓ یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج) |
Surah 2 : Ayat 104
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقُولُواْ رَٲعِنَا وَقُولُواْ ٱنظُرْنَا وَٱسْمَعُواْۗ وَلِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو1: رَاعِناَ نہ کہا کرو، بلکہ اُنظرنَا کہو اور توجہ سے بات کو سنو2، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں
2 | یہُودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذُو معنی الفاظ بولتے، زور سے کچھ کہتے اور زیرِ لب کچھ اور کہہ دیتے، اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، یہ ایک ذُومعنی لفظ تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے دَوران میں یہُودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے، ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے۔اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت یہ کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔ مثلاً عبرانی میں اس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے”سُن، تُو بہرا ہو جائے “۔ اور خُود عربی میں اس کے ایک معنی صاحبِ رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سُنو، تو ہم تمہاری سُنیں۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر رَاعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا، جس کے معنی ”اے ہمارے چرواہے“ کے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُ نْظُرْ نَا کہا کرو۔یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔ پھر فرمایا کہ ”توجّہ سے بات کو سُنو“، یعنی یہُودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دَوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں ، مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے |
1 | اس رکُوع اور اس کے بعد والے رکوع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کو اُن شرارتوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جماعت کے خلاف یہُودیوں کی طرف سے کی جارہی تھیں، اُن شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں جو یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور اُن خاص خاص نکات پر کلام کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ یہُودیوں کی گفتگو میں زیرِ بحث آیا کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچے اور ان اطراف میں اسلام کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی ، تو یہُودی جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہبی بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے ، اپنی موشگافیوں اور تشکیکات اور سوال میں سے سوال نکالنے کی بیماری اِن سیدھے اور سچے لوگوں کو بھی لگانا چاہتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آ کر پُرفریب مکّارانہ باتیں کر کے اپنی گھٹیا درجے کی ذہنیّت کا ثبُوت دیا کرتے تھے |
Surah 2 : Ayat 108
أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْــَٔلُواْ رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ ٱلْكُفْرَ بِٱلْإِيمَـٰنِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبہ کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ سے کیے جا چکے ہیں1؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا
1 | یہُودی موشگافیاں کر کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے تھے اور انہیں اکساتے تھے کہ اپنے نبی سے یہ پوچھو اور یہ پوچھو اور یہ پوچھو۔ اس پر اللہ تعالٰی مسلمانوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ اس معاملے میں یہُودیوں کی روش اختیار کرنے سے بچو۔ اسی چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مسلمانوں کو بار بار متنبہ فرمایا کرتے تھے کہ قیل و قال سے اور بال کی کھال نکالنے سے پچھلی اُمّتیں تباہ ہو چکی ہیں، تم اس سے پرہیز کرو۔ جن سوالات کو اللہ اور اس کے رسُول نے نہیں چھیڑا ، ان کو کھوج میں نہ لگو۔ بس جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اس کی پیروی کرو اور جن اُمور سے منع کیا جاتا ہے ، ان سے رُک جا ؤ ، دُور از کار باتیں چھوڑ کر کام کی باتوں پر توجہ صرف کرو |