Ayats Found (3)
Surah 67 : Ayat 16
ءَأَمِنتُم مَّن فِى ٱلسَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ ٱلْأَرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ
کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں1 ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے؟
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی آسمان میں رہتا ہے، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔ کسی آفت کے موقع پر سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے۔ کوئی ناگہانی بلا آ پڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اوپر سے نازل ہوئی ہے۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالم بالا سے آئی ہے۔ اللہ تعالٰی کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتب سماوی یا کتب آسمانی کہا جاتا ہے۔ (ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتاہوں؟ حضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا، حضورؐ نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا، جس سے اس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا۔ اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے (اسی سے ملتا جلتا قصہ موطا ، مسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے)۔ حضرت خولہ بنت ثغلبہ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ، یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی (تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ 2 میں ہم اس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں)۔ ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اس کا ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اوپر آسمان کی طرف جاتا ہے۔ اسی کو ملحوظ رکھ کر یہاں اللہ تعالٰی کے متعلق من فی السماء (وہ جو آسمان میں ہے)کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالٰی کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ اسی سورہ ملک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ الذین خلق سبع سموات طباقا (جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے) اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے، فاینما تولو فثم وجہ اللہ۔ (پس تم جدھر بھی رخ کرو اس طر ف اللہ کا رخ ہے) |
Surah 67 : Ayat 17
أَمْ أَمِنتُم مَّن فِى ٱلسَّمَآءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًاۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ
کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے؟1 پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے2
2 | تنبیہ سے مراد وہ تنبیہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور قرآن پاک کے ذریعہ سے کفار مکہ کو کی جا رہی تھی کہ اگر کفر و شرک سے باز نہ آؤ گے اور اس دعوت توحید کو نہ مانو گے جو تمہیں دی جا رہی ہے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے |
1 | مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہارا بقا اور تمہاری سلامتی ہر وقت اللہ تعالٰی کے فضل پر منحصر ہے۔ اپنے بل بوتے پر تم یہاں مزے سے نہیں دندنا رہے ہو۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ جو یہاں گزر رہا ہے، اللہ کی حفاظت اور نگہبانی کار ہین منت ہے۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے سے ایک زلزلہ ایسا آ سکتا ہے کہ یہی زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے |
Surah 43 : Ayat 84
وَهُوَ ٱلَّذِى فِى ٱلسَّمَآءِ إِلَـٰهٌ وَفِى ٱلْأَرْضِ إِلَـٰهٌۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ
وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے1
1 | یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے ، اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے |