Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 245
مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَـٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضْعَافًا كَثِيرَةًۚ وَٱللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے1 تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
1 | ”قرضِ حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، اُسے اللہ تعالٰی اپنے ذمّے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گُنا زیادہ دُوں گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرضِ حَسَن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ محض اللہ کی خاطر اُن کا موں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے |
Surah 5 : Ayat 12
۞ وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ ٱثْنَىْ عَشَرَ نَقِيبًاۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَكُمْۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَيْتُمُ ٱلزَّكَوٲةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّـَٔـاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٲلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب1 مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ 2"میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے3 تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا4 اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل5 گم کر دی"
5 | یعنی اُس نے”سَوَا ء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسّط و اعتدال کی شاہ راہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پُورا مفہُوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جُوں کا تُوں لے لیا ہے۔ اِس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالِم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں، خواہشیں ہیں، جذبات اور رُحجانات ہیں، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، رُوح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدّن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامانِ زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدّن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پُورے عرصۂ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے، اس کے سارے جذبات و رُحجانات میں توازن قائم رہے، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پُورے ہوں، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادّی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدّنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلووں میں سے کوئی ایک پہلو، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلّط ہو جاتا ہے کہ دُسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے۔ اور اس کی اِس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حُدُود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شرُوع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ اُن کے ساتھ انصاف ہو۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رُونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبادیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصُوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رُخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دُوسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے۔ اِس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دُوسرے کنارے کی طرف ڈُھلکتی چلی جاتی ہے۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں، خطِ منحنی کی شکل میں واقع ہیں، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دُوسری غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔ اِن بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ، اس کے تمام جذبات و رُحجانات کے ساتھ، اور اس کی رُوح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ، اوراس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پُورا پُورا انصاف کیا گیا ہو، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ، کوئی کجی، کِسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دُوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامُرادی کے لیے سخت ضرورت ہے۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اُس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہ راہ کو ڈھونڈتی ہے۔مگر انسان خود اس شاہ راہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی طرف صرف خداہ راہ نمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اِس راہِ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراطِ مستقیم کہتا ہے۔ یہ شاہ راہ دُنیا کی اِس زندگی سے لے کر آخرت کی دُوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رَو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا، وہ یہاں غلط ہیں، غلط رَو اور غلط کار ہے، اور آخرت میں لامحالہ اُسے دوزخ میں جانا ہے، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے بعض نا دان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جا رہی ہے، یہ غلط نتیجہ نِکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“(Dialectical Process) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اُسے ایک رُخ پر بہا لے جائے، پھر اِس کے جواب میں دُوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اُسے دُوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج (Synthesis) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اُس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دُور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دُوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے۔ جُوں جُوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اُسے دُوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دُوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دُوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا |
4 | کسی سے اُس کی بُرائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہِ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی بُرائیوں سے ، اور اس کا طرزِ زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیتِ مجمُوعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ بُرائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سےساقط کر دے گا، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بُنیادی اِصلاح قبول کر لی ہو اس کی جُزئی اور ضمنی بُرائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالٰی سخت گیر نہیں ہے |
3 | یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔ چونکہ اللہ تعالٰی اُس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے، کئی گُنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوصِ وحُسنِ نیت کے ساتھ خرچ کی جائے |
2 | یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہو |
1 | نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالٰی نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگرانِ کار کی قرار دیتا ہے |
Surah 57 : Ayat 11
مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَـٰعِفَهُۥ لَهُۥ وَلَهُۥٓ أَجْرٌ كَرِيمٌ
کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر1 ہے
1 | یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوۓ مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن(اچھا قرض)ہو، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جاۓ، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتا یا جاۓ، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی بڑھا چڑھا کر واپس دے گا، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرماۓ گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضورؐ کی زبان مبارک سے لگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الد حداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا، ہاں ، اے ابو الدحداح۔ انہوں نے کہا، ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایۓ۔ اپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’ میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے ، اسی میں ان کا کھر تھا، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات کر رکے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکارا کر کہا ‘’دحداح کی ماں ، نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ‘‘ وہ بولیں ’’ تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ’’، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (اب ابی حاتم)۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے |
Surah 57 : Ayat 18
إِنَّ ٱلْمُصَّدِّقِينَ وَٱلْمُصَّدِّقَـٰتِ وَأَقْرَضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَـٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات1 دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، اُن کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے
1 | صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی بڑے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطۓ کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جاۓ، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جاۓ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صِدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی طرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو |
Surah 64 : Ayat 17
إِن تُقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَـٰعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْۚ وَٱللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ
اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا1 اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے2
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، فاطر، حواشی 52۔ 59۔ الشوریٰ، حاشیہ 42 |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 267۔ المائدہ، حاشیہ 32۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
Surah 73 : Ayat 20
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَىِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْءَانِۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰۙ وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى ٱلْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَءَاخَرُونَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُۚ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًاۚ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ
اے نبیؐ1، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو2، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے3 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو4 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں5، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں6 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو7 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو 8جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے 9اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 | مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ایکم ما لہ احب الیہ من مال وارثہ؟ ’’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا اعلموا ما تقولون۔ ’’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر۔ ’’ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی۔ مسند ابو یعلیٰ) |
8 | ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، یا بندگان خدا کی مدد ہو، یا رفاہ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ، حاشیہ 33۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
7 | مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے |
6 | یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومیہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا سول اللہ صلی علیہ وسلم و اخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘ (ابن مردویہ) حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یا تینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ ’’جہاد فی سبیل اللہ کے بغد اگر کسی حالت م یں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان) |
5 | جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے |
4 | چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا ’’نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس آشت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا، وضو کرنا، اور ستر چھپانا واجب ن ہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں |
3 | ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو خطاب کیا گیا تھا۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضورؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر ا کثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے |
2 | اگرچہ ابتدائی حکم آدمی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ا یک تہائی رہ جاتی تھی |
1 | یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، حضرت عائشہؓ سے مسند احمد، مسلم ا ور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے (ابن جریر و ابن ابی حاتم) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضورؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے |