Ayats Found (17)
Surah 39 : Ayat 13
قُلْ إِنِّىٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّى عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے
Surah 39 : Ayat 53
۞ قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو1، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے2
2 | یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالٰی نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468 |
1 | بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خود ’’اے میرے بند‘‘ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سُن کر جھوم اُٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے، کیونکہ قرآن تو ازاوّل تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالٰی کا بندہ قرار دیتا ہے، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اُسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمدؐ ہو، اعا ذ نا اللہ من ذالک۔ |
Surah 42 : Ayat 18
يَسْتَعْجِلُ بِهَا ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَاۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا ٱلْحَقُّۗ أَلَآ إِنَّ ٱلَّذِينَ يُمَارُونَ فِى ٱلسَّاعَةِ لَفِى ضَلَـٰلِۭ بَعِيدٍ
جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں، مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقیناً وہ آنے والی ہے خوب سن لو، جو لوگ اُس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں
Surah 50 : Ayat 33
مَّنْ خَشِىَ ٱلرَّحْمَـٰنَ بِٱلْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ
جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا1، اور جو دل گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے2
2 | اصل الفاظ ہیں قلبِ مُنِیب لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی ہوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جُلائیں، وہ ہِر پھر کر قطب ہی کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزری ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گردہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جاۓ |
1 | یعنی باوجود اس کے کہ رحمان اس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کر سکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوۓ ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ رحمٰن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خَشِیَّت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق کے دل ہے خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقالہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجاۓ خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی پڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے |
Surah 51 : Ayat 37
وَتَرَكْنَا فِيهَآ ءَايَةً لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ
اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں1
1 | اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار(Dead Sea) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گۓ تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مُردار کا پانی پھیل گیا تھا، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو ’’للِّسان‘‘ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مُردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پاۓ جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط کا زمانہ ہے۔ 1965 ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو للسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پاۓ جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 114) |
Surah 52 : Ayat 26
قَالُوٓاْ إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِىٓ أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ
یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے1
1 | یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جاۓ جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوۓ زندگی بس کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی نا جائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوۓ ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جاۓ، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے |
Surah 52 : Ayat 27
فَمَنَّ ٱللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَـٰنَا عَذَابَ ٱلسَّمُومِ
آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا1 کے عذاب سے بچا لیا
1 | اصل میں لفظ سَمُوم استعمال ہوا ہے جس کے معنی سخت گرم ہوا کے ہیں ۔ اس سے مراد لُو کی وہ لپیٹیں ہیں جو دوزخ سے اٹھ رہی ہوں گی |
Surah 55 : Ayat 46
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ جَنَّتَانِ
اور ہر اُس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو1، دو باغ2 ہیں
2 | جنت کے اصل معنی باغ کے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں تو اس پورے عالم کو جس میں نیک لوگ رکھے جائیں گے جنت کہا گیا ہے، گویا کہ وہ پورا کا پورا ایک باغ ہے۔ اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہوں گے۔ اور یہاں تعین کے ساتھ ارشاد ہو ہے کہ ہر نیک شخص کو اس بڑی جنت میں دو دو جنتیں دی جائیں گی جو اسی کے لیے مخصوص ہوں گی، جن میں اس کے اپنے قصر ہوں گے، جن میں وہ اپنے متعلقین اور خدام کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہے گا، جن میں اس کے لیے وہ کچھ سرو سامان فراہم ہوگا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے |
1 | یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوۓ زندگی بسر کی ہو، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہو نا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا۔ حق و باطل، ظلم و انصاف، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا۔ یہی اس اصل علّت ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے |
Surah 57 : Ayat 16
۞ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ ٱللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ ٱلْحَقِّ وَلَا يَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ ٱلْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَـٰسِقُونَ
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں1 اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟2
2 | یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گۓ گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لاۓ کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟ |
1 | یہاں پھر ’’ ایمان لانے والوں ‘‘ کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تُلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بناۓ جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آۓ اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جاۓ اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں خود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟ |
Surah 59 : Ayat 21
لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُۥ خَـٰشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِۚ وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَـٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے1 یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں
1 | اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 120) |