Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 253
۞ تِلْكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ ٱللَّهُۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَـٰتٍۚ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدْنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِۗ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ وَلَـٰكِنِ ٱخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُواْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت نہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی |
Surah 5 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوْفُواْ بِٱلْعُقُودِۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى ٱلصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو1 تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے2، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو3، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے4
4 | یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز |
3 | احرام“ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبوکا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے |
2 | اَنعام“ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرند ہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی توعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں |
1 | یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے |
Surah 11 : Ayat 107
خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں1، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے2
2 | یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔البتہ اگر اللہ تعالٰیخود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہیے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کی بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کو پورا اختیار ہے کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو |
1 | ان الفاظ سے یا تو عالم آ خرت کے زمین و آسمان مراد ہیں یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا زکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں |
Surah 16 : Ayat 40
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَىْءٍ إِذَآ أَرَدْنَـٰهُ أَن نَّقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں 1"ہو جا" اور بس وہ ہو جاتی ہے
1 | یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جِلا اُٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سروسامان، کسی سبب اور وسیلے، اور کسی سازگاریٔ احوال کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہی سروزامان وجود میں لاتا ہے۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے۔ اِس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آسکتی ہے۔ |
Surah 22 : Ayat 14
إِنَّ ٱللَّهَ يُدْخِلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
(اِس کے برعکس) اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے1، یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے2
2 | یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ دنیا میں ، یا آخرت میں ، یا دونوں جگہ، وہ جس کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دلوانے والا نہیں |
1 | یعنی جن کا حال اس مطلب پرست، مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے ، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کرتے ہیں ، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہ حق پر چلتے رہتے ہیں ، خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا برے حالات سے ، خواہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں |
Surah 22 : Ayat 16
وَكَذَٲلِكَ أَنزَلْنَـٰهُ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍ وَأَنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يُرِيدُ
ایسی ہی کھُلی کھُلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے
Surah 36 : Ayat 82
إِنَّمَآ أَمْرُهُۥٓ إِذَآ أَرَادَ شَيْــًٔا أَن يَقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے
Surah 85 : Ayat 16
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے1
1 | ’’بخشنے والا ہے‘‘ کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے باز آ کر توبہ کر لے تو اس کا دامن رحمت میں جگہ پا سکتا ہے۔ ’’محبت کرنے والا‘‘ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس کو مبتلائے عذاب کرے، بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اس سے وہ محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ سرکشی سے باز ہی نہ آئے۔ ’’مالک عرش‘‘ کہہ کر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا فرمانروا وہی ہے، اس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ ’’بزک و برتر‘‘ کہہ کر انسان کو اس کمینہ پن پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ’’جو کچھ چاہے کر ڈالنےوالا ہے‘‘، یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے اس میں وہ مانع و مزاحم ہو سکے |