Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 178
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْۚ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُوٓاْ إِثْمًاۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے
Surah 68 : Ayat 45
وَأُمْلِى لَهُمْۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ
میں اِن کی رسی دراز کر رہا ہوں، میری چال1 بڑی زبردست ہے
1 | اصل میں لفظ کید استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی کے خلاف خفیہ تدبیر کرنے کے ہیں۔ یہ چیز صرف اس صورت میں ایک برائی ہوتی ہے جب یہ ناحق کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو۔ ورنہ بجائے خود اس میں کوئی برائی نہیں ہے، خصوصًا جب کسی ایسے شخص کے خلاف یہ طریقہ اختیار کیا جائے جس نے اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیا ہو |
Surah 7 : Ayat 183
وَأُمْلِى لَهُمْۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ
میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے
Surah 13 : Ayat 32
وَلَقَدِ ٱسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ
تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکر ین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی
Surah 22 : Ayat 44
وَأَصْحَـٰبُ مَدْيَنَۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَـٰفِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ
اور اہل مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مُہلت دی، پھر پکڑ لیا1 اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی2
2 | اصل میں لظ نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے اد نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بُری روش پر نا خوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو ایسی سزا دی جائے جواس کی حالت دگرگوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ یہ وہی شخص ہے۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی |
1 | یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اس وقت کی گئی جب کہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کفار مکہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ در حقیقت یہ مہلت غور و فکر ہے جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھا یا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے |
Surah 22 : Ayat 48
وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَىَّ ٱلْمَصِيرُ
کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا اور سب کو واپس تو میرے پاس ہی آنا ہے
Surah 73 : Ayat 11
وَذَرْنِى وَٱلْمُكَذِّبِينَ أُوْلِى ٱلنَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلاً
اِن جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو 1اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو
1 | ان الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ ﷺ کو جھٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات ابھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے ، پیٹ بھرے، خوشحال لوگ تھے، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اس دعوت اصلاح کی زد پڑ رہی تھی۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 60۔66۔75۔88۔ المومنون، 33۔ سبا، 34۔35۔ الزخرف، 23 |
Surah 86 : Ayat 17
فَمَهِّلِ ٱلْكَـٰفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدَۢا
پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو1
1 | یعنی انہیں ذرا مہلت دو کہ جو کچھ یہ کرنا چاہیں کر دیکھیں۔ زیادہ مدت نہ گزرے گی کی نتیجہ ان کے سامنے خود آ جائے گا اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تدبیر کے مقابلہ میں ان کی چالیں کتنی کار گر ہوئیں |