Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 152
فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُواْ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ
لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو1
1 | منصب امامت پر مامور کرنے کے بعداب اس اُمّت کو ضروری ہدایات دی جارہی ہیں۔ مگر تمام دُوسری باتوں سے پہلے انہیں جس پات پر متنبہ کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کوئی پھُولوں کا بستر نہیں ہے ، جس پر آپ حضرات لِٹائے جارہے ہوں۔ یہ تو ایک عظیم الشّان اور پُر خطر خدمت ہے، جس کا بار اُٹھانے کے ساتھ ہی تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہوگی، سخت آزمائشوں میں ڈالے جا ؤ گے، طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا کی راہ میں بڑھے چلے جا ؤ گے، تب تم پر عنایات کی بارش ہوگی |
Surah 2 : Ayat 172
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْ وَٱشْكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں اُنہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو1
1 | یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات، اور زمانہء جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے ، ربّیوں اور پادریوں نے ، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھا ؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھِ اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُالخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رُخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور اُن توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہلِ جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اُس کا اُن پابندیوں پر قائم رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اُس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے |
Surah 7 : Ayat 144
قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّى ٱصْطَفَيْتُكَ عَلَى ٱلنَّاسِ بِرِسَـٰلَـٰتِى وَبِكَلَـٰمِى فَخُذْ مَآ ءَاتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
فرمایا "اے موسیٰؑ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میر ی پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجالا"
Surah 16 : Ayat 114
فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَـٰلاً طَيِّبًا وَٱشْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو 1اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو2
2 | یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے |
Surah 29 : Ayat 17
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْثَـٰنًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًاۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَٱبْتَغُواْ عِندَ ٱللَّهِ ٱلرِّزْقَ وَٱعْبُدُوهُ وَٱشْكُرُواْ لَهُۥٓۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو1 در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو2
2 | ان چند فقروں میں حضرت ابراہیمؑ نے بُت پرستیکے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ہیں۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لامحالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کا خالق ہو اور اپنے وجود کے لیے اس کا بین منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہوا اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو کر آدمی کو اندیشہ ہو کر اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ محض بُت ہیں، کہہ کر انہوں نے پہلی وجہ کو ختم کر دیا کیونکہ جو نرابُت ہو اس کو معبود ہونے کو آخر کیا ذاتی استحقاق حاصل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہہ کر کہ تم ان کے خالق ہو، دوسری وجہ بھی ختم کر دی۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو خدا کی طرف ہے نہ کہ ان بتوں کی طرف، اس تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوارنا یا بگاڑنا بھی ان کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اخیتار میں ہے۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال کر کے حضرت دالانے یہ بات ان پر واضح کر دی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں |
1 | تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو |
Surah 31 : Ayat 12
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی1 کہ اللہ کا شکر گزار ہو2 جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے3
3 | یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفراس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔ |
2 | یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان اپنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری واحسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اوراس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔ |
1 | شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام،ج ۲، ص ۶۷۔۶۹۔ اُسُد الغابہ ،ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔ |
Surah 31 : Ayat 14
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٲلِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَـٰلُهُۥ فِى عَامَيْنِ أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٲلِدَيْكَ إِلَىَّ ٱلْمَصِيرُ
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے1 (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے
1 | ان الفاظ سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندراگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت۲۳۳)۔ ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ماہ ہے، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰مہینوں میں ہُوا۔‘‘ (الاحقاف ،آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ |
Surah 34 : Ayat 13
يَعْمَلُونَ لَهُۥ مَا يَشَآءُ مِن مَّحَـٰرِيبَ وَتَمَـٰثِيلَ وَجِفَانٍ كَٱلْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَـٰتٍۚ ٱعْمَلُوٓاْ ءَالَ دَاوُۥدَ شُكْرًاۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِىَ ٱلشَّكُورُ
وہ اُس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں، تصویریں، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں2 اے آلِ داؤدؑ، عمل کرو شکر کے طریقے پر3، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں
3 | یعنی شکر گزار بندوں کی طرح کام کرو۔ جو شخص نعمت دینے والے کا احسان محض زبان سے مانتا ہو، مگر اس کی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہو، اس کا محض زبانی شکر یہ بے معنی ہے۔ اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے بھی نعمت کا اعتراف کرے، اور اس کے ساتھ منعم کی عطا کردہ نعمتوں سے وہی کام بھی لے جو منعم کی مرضی کے مطابق ہو |
2 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مہمان نوازی ہوتی تھی۔ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اس لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں لوگوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا جائے اور بھاری دیگیں اس لیے بنوائی گئی تھیں کہ ان میں بیک وقت ہزاروں آدمیوں کا کھانا پک سکے |
Surah 34 : Ayat 15
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِى مَسْكَنِهِمْ ءَايَةٌۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍۖ كُلُواْ مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَٱشْكُرُواْ لَهُۚۥ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
سبا کے لیے1 اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی2، دو باغ دائیں اور بائیں 3کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا
3 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی |
2 | یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے۔ |
1 | سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7۔8۔12 میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔ |
Surah 39 : Ayat 66
بَلِ ٱللَّهَ فَٱعْبُدْ وَكُن مِّنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
لہٰذا (اے نبیؐ) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ