Ayats Found (14)
Surah 4 : Ayat 29
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَأْكُلُوٓاْ أَمْوَٲلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَـٰرَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْۚ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے1 اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے2
2 | یعنی اللہ تعالٰی تمہارا خیر خواہ ہے ، تمہاری بھلائی چاہتا ہے ، اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسے کاموں سے منع کررہا ہے جن میں تمہاری اپنی بربادی ہے |
1 | ”باطل طریقوں“ سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلافِ حق ہوں اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں۔ ”لین دین“ سے مراد یہ ہے کہ آپس میں مفاد و منافع کا تبادلہ ہونا چاہیے جس طرح تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دُوسرے شخص کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ دیتا ہے ۔ ” آپس کی رضامندی“ سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دبا ؤ سے ہو اور نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سُود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جُوے میں حصّہ لینے والا ہر شخص اس غلط اُمید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہوگی۔ ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا ۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریقِ ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہر گز اس پر راضی نہ ہو |
Surah 4 : Ayat 36
۞ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی1 اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
1 | متن میں”الصا حب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہےاور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدا ر بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے |
Surah 4 : Ayat 37
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں1 ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
1 | اللہ کے فضل کو چھُپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گِر کر رہے۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیّال پر خرچ کرے، نہ بندگانِ خدا کی مدد کرے، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالٰی کی سخت نا شکری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمة علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے |
Surah 6 : Ayat 141
۞ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَ جَنَّـٰتٍ مَّعْرُوشَـٰتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَـٰتٍ وَٱلنَّخْلَ وَٱلزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُۥ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُتَشَـٰبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۚ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَءَاتُواْ حَقَّهُۥ يَوْمَ حَصَادِهِۦۖ وَلَا تُسْرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان1 اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اس کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
1 | اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دُوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دُوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ کے لیے ”تاکستان“(یعنی انگوری باغ) کا لفظ اختیار کیا ہے |
Surah 9 : Ayat 103
خُذْ مِنْ أَمْوَٲلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْۖ إِنَّ صَلَوٲتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 9 : Ayat 111
۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَٲلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَٮٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْءَانِۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِۚ فَٱسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦۚ وَذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں1 وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں2 اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے
2 | اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیا د ہیں ۔ جو انجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں ، مثلاً: ”مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں ، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے“ (متی ۱۰:۵) ”جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا“(متی ۳۹:۱۰) ”جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا“(متی ۲۹:۱۹) البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا، اور یہی مضمون کیا، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جز و لاینفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادّہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الہٰی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے : ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر“ (استثناء ۶ : ۴ : ۵ ) اور یہ کہ: ”کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کوخریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا“ (استثنا ء ۳۲ : ۶) لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اُس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ، یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے ، اور پھر وہ خالص کلامِ الہٰی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات، اُن کے نسلی تعصبات ، ان کے اوہام، ان کی آرزووں اور تمناؤں ، ان کی غلط فہمیوں ، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلامِ الہٰی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو اِن زوائد سے ممیز کرنا قطعًا غیر ممکن ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران ، حاشیہ نمبر۲) |
1 | یہاں ایمان کے اُس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے ، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اِس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقیت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اُس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اُس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کررہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اُسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نےکلیۃً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب وارادہ میں آزاد ہونا اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور اُن اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں ، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں جو جس طرح چاہے استعمال کرے ۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے حقوق ِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھرا س میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے ، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر تُو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو ( جو تیری حاصل کر دہ نہیں بلکہ میری عطا کر دہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی اودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادار کروں گا ۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے ، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔ بیع کی اِس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضمُّنات کا تجزیہ کیجیے: (۱) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اُس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے۔ (۲) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اُس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا ، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے، مگر خدا کے ہاں یقینًا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نےخدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآ ن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اُس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا ، یہ دونوں طرزِ عمل ایسے ہین جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے ، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔ (۳) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اورکافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الّا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خد ا کے ساتھ اپنے معاہدہ ٔ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ اہلِ ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب ، کوئی طریقِ معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویّہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کرسکتا۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہو گا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ، بہر حال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ”مسلمان“ کے نام سے موسوم ہوں یا ”غیر مسلم“ کے نام سے۔ (۴) اس بیع کی روسے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا کود بتائے ۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ ٔزندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔ یہ اس بیع کے تضمنات ہیں ، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت(یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں موخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اِس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ”بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا“۔ بلکہ وہ اِس عمل کا معاوضہ ہے کہ”بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خودمختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے“۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ اِن امور کی توضیح کے ساتح یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر ، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت، اپنے مال، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا ۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویّہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان ، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے ، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اِس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو ، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو ، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو ۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں ۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے |
Surah 13 : Ayat 22
وَٱلَّذِينَ صَبَرُواْ ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِٱلْحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں2 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
2 | یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خوا ہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون اِن احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنو ا و ان اساؤا فلا تظلموا۔ ”تم اپنے طرز ِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ”جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر |
1 | یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الہٰی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے |
Surah 14 : Ayat 31
قُل لِّعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَـٰلٌ
اے نبیؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں) خرچ کریں1 قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی2
2 | یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچالے |
1 | مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے۔ وہ تو کافر ِ نعمت ہیں۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں |
Surah 23 : Ayat 60
وَٱلَّذِينَ يُؤْتُونَ مَآ ءَاتَواْ وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَٲجِعُونَ
اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے1
1 | عربی زبان میں ’’ دینے ‘‘ (یتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہٗ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے کے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابائۃ۔ پس اس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں ،جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھولتے نہیں ہیں ، غرور تقویٰ اور پندار خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہماری گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو ، ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو، یہی مطلب ہے جس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی، ابن ماجہ ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے ‘‘؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اسے : یَأ تُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں ، یعنی ’’ کرتے ہیں جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘‘۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا یابنت الصدیق و لٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق وھو یخاف اللہ عزو جلّ، ’’ نہیں ، اے صدیق کی بیٹی اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے ‘‘۔ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت : یَأتُوْ نَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے ، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجالانے کے وسیع معنی میں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمرؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہ، اور منافق معصیت کرتا ہے پر بھی بے خوف رہتا ہے |
Surah 23 : Ayat 61
أُوْلَـٰٓئِكَ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَهُمْ لَهَا سَـٰبِقُونَ
بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں