Ayats Found (12)
Surah 10 : Ayat 22
هُوَ ٱلَّذِى يُسَيِّرُكُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِۖ حَتَّىٰٓ إِذَا كُنتُمْ فِى ٱلْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُواْ بِهَا جَآءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَآءَهُمُ ٱلْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْۙ دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ “اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے1"
1 | یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہرانسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑااور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کارفرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹) |
Surah 10 : Ayat 23
فَلَمَّآ أَنجَـٰهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّۗ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمۖ مَّتَـٰعَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے دنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو
Surah 16 : Ayat 14
وَهُوَ ٱلَّذِى سَخَّرَ ٱلْبَحْرَ لِتَأْكُلُواْ مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُواْ مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى ٱلْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے ترو تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو1 اور اس کے شکر گزار بنو
1 | یعنی حلال طریقوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو |
Surah 17 : Ayat 66
رَّبُّكُمُ ٱلَّذِى يُزْجِى لَكُمُ ٱلْفُلْكَ فِى ٱلْبَحْرِ لِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦٓۚ إِنَّهُۥ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
تمہارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے1 تاکہ تم اس کا فضل تلا ش کرو2 حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے
2 | یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں |
1 | اوپر کےسلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھرایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ ابلیس اولِ روزِ آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تاکہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہیں ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے۔ اس خطرے سےاگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل(مدارِ توکل)بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔۔۔۔۔اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔ |
Surah 17 : Ayat 67
وَإِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فِى ٱلْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّآ إِيَّاهُۖ فَلَمَّا نَجَّـٰكُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ أَعْرَضْتُمْۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ كَفُورًا
جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں1، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے
1 | یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے۔ ورنہ آخراس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اُس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا؟مزید تفصیل کےلیے دیکھو سورۃ یونس حاشیہ ۳۱ |
Surah 23 : Ayat 22
وَعَلَيْهَا وَعَلَى ٱلْفُلْكِ تُحْمَلُونَ
اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو1
1 | مویشیوں اور کشتیوں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اونٹ استعمال کرتے تھے ، اور اونٹوں کے لیے ’’خشکی کے جہاز‘‘ کا استعارہ بہت پرانا ہے۔ جاہلیت کا شاعر ذوالرُّمَّہ کہتا ہے : ؏ سفینۃ برٍّ تحت خدی زما مھا |
Surah 31 : Ayat 31
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱلْفُلْكَ تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِنِعْمَتِ ٱللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ ءَايَـٰتِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟1 در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو2
2 | یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کرکے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اورناگوارا، سخت اور نرم، اچھے اور بُرے، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑگڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کوگالیاں دینا شروع کردیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکروسپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں۔ |
1 | در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہراُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ |
Surah 36 : Ayat 41
وَءَايَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ
اِن کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے اِن کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا1
1 | بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوحؑ کی کشتی۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوحؑ کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر در حقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ کیوں کہ طوفانِ نوحؑ میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی |
Surah 36 : Ayat 42
وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِۦ مَا يَرْكَبُونَ
اور پھر اِن کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں1
1 | اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوحؑ والی کشتی تھی۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے حضرت نوحؑ کو دی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل نے بحری سفروں کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ |
Surah 42 : Ayat 32
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِ ٱلْجَوَارِ فِى ٱلْبَحْرِ كَٱلْأَعْلَـٰمِ
اُس کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں