Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 261
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٲلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّاْئَةُ حَبَّةٍۗ وَٱللَّهُ يُضَـٰعِفُ لِمَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
جو لوگ1 اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی2
2 | یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے |
1 | ”اب پھر سلسلہ ء کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ِ ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصدِ عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اُس کا معاشی نقطہء نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صَرف کرنے لگے۔ مادّہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اِس ذہنیّت کے ساتھ اُس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دُنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دُوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیّت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں |
Surah 2 : Ayat 281
وَٱتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى ٱللَّهِۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا
Surah 3 : Ayat 92
لَن تَنَالُواْ ٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىْءٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو1، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
1 | اس سے مقصُود اُن کی اس غلط فہمی کو دُور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصوّر بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اُتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اُوپری سطح سے نیچے بالعمُوم یہُودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیُوب چھّپائے ہوئے تھے اور رائے عام اُن کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے اُنھیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام اُن چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل رُوح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بُت ہے اور جب تک اُ س بُت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اُس پر بند ہیں۔ اس رُوح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اُس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھُن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا |
Surah 3 : Ayat 133
۞ وَسَارِعُوٓاْ إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی
Surah 3 : Ayat 134
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِى ٱلسَّرَّآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَٱلْكَـٰظِمِينَ ٱلْغَيْظَ وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں1
1 | (سُود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سُود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سُود لینے والوں میں حرص و طمع ، بُخل اور خود غرضی ۔ اور سُود دینے والوں میں نفرت، غصّہ اور بُغض و حسد۔ اُحُد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصّہ شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سُود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالک برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دُوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دُوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۳۲۰) |
Surah 3 : Ayat 180
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ هُوَ خَيْرًا لَّهُمۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِۦ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ وَلِلَّهِ مِيرَٲثُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے