Ayats Found (13)
Surah 2 : Ayat 19
أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٲعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِۚ وَٱللَّهُ مُحِيطُۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ
یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھو نسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے1
1 | یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے |
Surah 3 : Ayat 120
إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَاۖ وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْــًٔاۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے1
1 | یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ یہ جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگِ اُحُد پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اُوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔“ اب چونکہ اُحُد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں، اس لیے یہ خطبہ جس میں اُنھیں اِن کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے ، مندرجہٴ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا۔ اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگِ اُحُد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تُلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفارِ قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگِ بدر کے انتقام کی شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادتت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا ، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار اُن کے اصرار سے مجبُور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ ؐ کے ساتھ نکلے، مگر مقامِ شَوط پر پہنچ کر عبداللہ ابنِ ابَیّ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا۔ عین وقت پر اُس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا ، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارِثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر پھر اُولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا۔ اِن باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اُحُد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے ۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا ۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جُبَیر کے زیرِ قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا ۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مالِ غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لُوٹنا شروع کر دیا۔ اُدھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لُٹ رہی ہے ، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکید حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکرِ کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے ، بر وقت فائدہ اُٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے ، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے ۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورتِ حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حِصّہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اُڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمّت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ ؐ خود زخمی ہو چکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ ؐ کے گرد جمع ہو گئے اور آپ ؐ کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معمّا ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار ِ مکّہ کو خود بخود واپس پھیر دیا ۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے |
Surah 4 : Ayat 108
يَسْتَخْفُونَ مِنَ ٱلنَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ ٱللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ ٱلْقَوْلِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا
یہ لو گ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے وہ تواُس وقت بھی اُن کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ راتوں کو چھپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں اِن کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے
Surah 4 : Ayat 126
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ مُّحِيطًا
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے12
2 | یعنی اگر انسان اللہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور سرکشی سے باز نہ آئے تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتا ، اللہ کی قدرت اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے |
1 | یعنی اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا اور خود سَری و خود مختاری سے باز آجانا اِس لیے بہترین طریقہ ہے کہ یہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ جب اللہ زمین و آسمان کا اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں تو انسان کے لیے صحیح رویّہ یہی ہے کہ اس کی بندگی و اطاعت پر راضی ہو جائے اور سر کشی چھوڑ دے |
Surah 8 : Ayat 47
وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَـٰرِهِم بَطَرًا وَرِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں 1جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے
1 | اشارہ ہے کفار قریش کی طرف، جن کا لشکر مکہ سےا س شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھیر کر رقص وسردد اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت۔، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، ور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھا نے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پا کیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔ یہ ہدایت اُسی زمانہ کے لیے نہ تھی، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اُس وقت تھا وہی آج بھی ہے۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزولا نیفک کی طرح لگے رہتے ہیں۔ خفیہ طور پر نہیں۔ بلکہ علی ال علان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے ۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں۔ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ نا پاک ان کے مقاصد جنگ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک جلاح انسانیت ہی نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہاان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور اُن ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پر ہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں |
Surah 11 : Ayat 92
قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَهْطِىٓ أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَٱتَّخَذْتُمُوهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِيًّاۖ إِنَّ رَبِّى بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
شعیبؑ نے کہا "بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور) اللہ کو بالکل پس پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے
Surah 17 : Ayat 60
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِٱلنَّاسِۚ وَمَا جَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِىٓ أَرَيْنَـٰكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِى ٱلْقُرْءَانِۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَـٰنًا كَبِيرًا
یاد کرو اے محمدؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے 1اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے2، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے3، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا4 ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے
4 | یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کوحقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آجائیں، مگر ان لوگوں نے اُلٹا اُس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبر دار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخرکار تمہں زقوم کے نوالے کھلواکر رہیں گی، مگر انہوں نے اُس پر ایک ٹھٹھا لگایا اور کہنے لگے،ذرا اس شخص کو دیکھو، ایک طرف کہتاہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہوگی، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اُگیں گے۔ |
3 | یعنی زقوم، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہوگا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اُس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ اسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایاہو، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تاکہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اُٹھائیں۔ سورہ دُخان(آیات ۴۳۔ ۴٦)میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوذخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو۔ |
2 | اشارہ ہے معراج کی طرف۔ اس کے لیے یہاں لفظ”رؤیا“ جو استعمال ہوا ہے یہ ”خواب“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیان کیا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا۔ خواب ایک سے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنھبے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں۔ |
1 | یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے، اور یہ کام جو تو نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبر دار ہونا ہے، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوتِ اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی، اور یہ تیرا بال تک بھیگا نہ کر سکے۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا فِیْ تَکْذِیْبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآ ءِھِمْ مُّحِیطٌ(مگر یہ کافرجھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے)۔ |
Surah 18 : Ayat 91
كَذَٲلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا
یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے
Surah 41 : Ayat 54
أَلَآ إِنَّهُمْ فِى مِرْيَةٍ مِّن لِّقَآءِ رَبِّهِمْۗ أَلَآ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءٍ مُّحِيطُۢ
آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں1 سن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے2
2 | یعنی اس کی گرفت سے بچ کر یہ کہیں جا نہیں سکتے اور اس کے ریکارڈ سے ان کی کوئی حرکت چھوٹ نہیں سکتی |
1 | یعنی ان کے اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کبھی ان کو اپنے رب کے سامنے جانا ہے اورا پنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے |
Surah 48 : Ayat 21
وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُواْ عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِهَاۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرًا
اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے1، اللہ ہر چیز پر قادر ہے
1 | اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی راۓ قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جاۓ گا |