Ayats Found (3)
Surah 22 : Ayat 28
لِّيَشْهَدُواْ مَنَـٰفِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِۖ فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ
تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں1 اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں2، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں3
3 | بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں ، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری ، عطاء ، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ : فَکُلُوْ ا مِنْھَا۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا: و اِذَ ا حَلَلْتُمْ فَصْطَا دُوْا ، ’’ جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘ (المائدہ۔ آیت 2 ) اور : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ ، ’’ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ‘‘ (الجمعہ۔ آیت 10 )۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں ، اسے کھاؤ ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا ، دوست، ہمساۓ ، رشتہ دار ، خواہ محتاج نہ ہوں ، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا ، خود بھی کھانا ، مساکین کو بھی دینا ، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو |
2 | جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ ، گائے، بھیڑ ، بکری، جیسا کہ سور انعام 142۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے ‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایام معلومات (چند مقرر دنوں ) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباسؓ ، حسن بصری، ابراہیم نَخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہؒ بھی اسی طرف گۓ ہیں۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی، 10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابن عباسؒ ، اب عمرؓ ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ، اور امام شافعیؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں ، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر، علی، ابن عمر ، ابن عباس، انس بن مالک ، ابو ہریرہ ، سعید بن مُسیّب اور سعید بن حبیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہا میں سے سفیانؒ ثوری ، امام مالکؒ ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں ، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے ، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے ، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے |
1 | اس سے مراد صرف سینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آل عمران ، حواشی، 80۔ 81۔ المائدہ ، حاشیہ 113۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گۓ۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہو گیا |
Surah 22 : Ayat 30
ذَٲلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَـٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ ٱلْأَنْعَـٰمُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْۖ فَٱجْتَنِبُواْ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَـٰنِ وَٱجْتَنِبُواْ قَوْلَ ٱلزُّورِ
یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے1 اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے2، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں3 پس بتوں کی گندگی سے بچو4، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو5
5 | اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان،اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات ، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْ ا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَ اللہِ الْکَذِبَ ، ’’ اور یہ جو تمہاری زبانی جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘ آیت 116۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہِ ، ’’ جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ‘‘ ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمرؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم و جھہ وہ یطال جلسہ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ‘‘۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو، پھر اس کو قید کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے |
4 | یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہیں آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا |
3 | اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے‘‘۔ (الانعام، آیت 145۔ النحل، آیت 115) |
2 | اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بَھیِرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے |
1 | بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اَولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں |
Surah 22 : Ayat 36
وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَـٰهَا لَكُم مِّن شَعَـٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌۖ فَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّۚ كَذَٲلِكَ سَخَّرْنَـٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (قربانی کے) اونٹوں کو1 ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے2، پس انہیں کھڑا کر کے3 ان پر اللہ کا نام لو4، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں5 تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو6
6 | یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا ، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کر کے تمہیں بخشی ہے |
5 | ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گر کر ٹھیر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نکل جائے۔ ابو داؤد ، ترمذی اور مسنداحمد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ما قُطع (اَو ما بان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’ جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے |
4 | یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے ، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ آکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت 36 میں فرمایا : فَاذْکُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا ، ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت 37 میں فرمایا : لِتَکَبِّرُ وا اللہ عَلٰی مَا ھَدٰ کُمْ، ’’ تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً 1 :۔ بِسْمِ اللہِ وَللہُ اکْبَر ، اَللہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ‘‘۔ 2 :۔ اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ اللہمّ منک ولک ، ’’ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خدایا تیار ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ’’۔ 3 :۔ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَجِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَا یَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰ لِکَ اَمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ میں نے یکسو ہو کر اپنی رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رَبّ العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہیں لیے حاضر ہے |
3 | واضح رہے کہ اونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کرکے کی جاتی ہے۔ اس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَواف کا۔ ابن عباس ، مجاہد، ضحاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابن عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا : البعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ و سلم۔ ’’ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر ، یہ ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اسے کھڑا کرتے تھے ، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے : اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا ، ’’ جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں ‘‘۔ یہ اسی صورت میں بولیں گے جب کہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے |
2 | یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے ، نہ صرف شکر نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں ، جن کی کھالوں اور بالوں اورخون اور ہڈی ، غرض یک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں |
1 | اصل میں لفظ ’’بدن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کر سکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ : امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان نشرک فی الاضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں ، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گاۓ سات آدمیوں کے لیے‘‘ |