Ayats Found (5)
Surah 13 : Ayat 15
وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَـٰلُهُم بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْأَصَالِ ۩
وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے1 اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جھکتے ہیں2
2 | سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی کے امر کی مطیع اور کسی کے قانون سے مسخر ہیں |
1 | سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا ، حکم بجا لانا اور سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر مخلوق اِس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کر سکتی ۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبورًا جھکنا پڑتا ہے، کیونکہ خدا کے قانون فطرت سے ہٹنا اُس کی مقدرت سے باہر ہے |
Surah 16 : Ayat 48
أَوَلَمْ يَرَوْاْ إِلَىٰ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ مِن شَىْءٍ يَتَفَيَّؤُاْ ظِلَـٰلُهُۥ عَنِ ٱلْيَمِينِ وَٱلشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَٲخِرُونَ
اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ 1سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں
1 | یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادّی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادّی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔ |
Surah 16 : Ayat 50
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩
اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں
Surah 22 : Ayat 18
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ ٱلنَّاسِۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ ٱلْعَذَابُۗ وَمَن يُهِنِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِن مُّكْرِمٍۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ ۩
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں1 وہ سب جو آسمانوں میں ہیں2 اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان3 اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟4 اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے5، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے6
6 | یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے ، اور سورہ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 157 |
5 | یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے ، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے ، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے ، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جواس نے خود مانگی ہے۔پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سر فراز کر دے |
4 | مطلب یہ ہے کہ اگر چہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائیگا۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے جھکاتا ہے ، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے ، کسی جن، کسی نبی اور ولی ، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اورمعبودیت کا مقام دیا جا سکے ، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکتے۔ کسی قانون بے حاکم اور فطرت بے صانع اور نظام بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلا تا رہے اور قدرت و حکمت کے ہو حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خد اکے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا |
3 | یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بلارادہ اور بطوع و رغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے ، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے ، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے |
2 | یعنی فرشتے ، اَجرام فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات، نباتات ، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد ، حاشیہ 24۔25 ، الجحل، حاشیہ 41۔ 42 |
Surah 55 : Ayat 6
وَٱلنَّجْمُ وَٱلشَّجَرُ يَسْجُدَانِ
اور تارے1 اور درخت سب سجدہ ریز ہیں2
2 | یعنی آسمان کے تارے اور زمین کے درخت، اس اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان اور اس کے قانون کے پابند ہیں، جو ضابطہ ان کے لیے بنا دیا گیا ہے اس سے یَک سَرِ مُو تجاوز نہیں کر سکتے۔ ان دونوں آیتوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کا آفریدہ ہے اور اسی کی اطاعت میں چل رہا ہے۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک نہ کوئی خود مختار ہے، نہ کسی اور کی خدائی اس جہان میں چل رہی ہے، نہ خدا کی خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے، اور نہ کسی کا یہ مقام ہے کہ اسے معبود بنا یا جاۓ۔ سب بندے اور غلام ہیں، آقا تنہا ایک رب قدیر ہے۔ لہٰذا توحیدی حق ہے جس کی تعلیم یہ قرآن دے رہا ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو شخص بھی شرک یا کفر کر رہا ہے وہ در اصل کائنات کے پورے نظام سے بر سر پیکار ہے |
1 | اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عربی میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہا ںبھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیوں کہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگر چہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی راۓ صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بھی نجوم اور شجر کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اور وہاں نجوم کو تاروں کے سوا اور کسی معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں اَلَمْ تَرَاَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ و الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَا بُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَالنَّاسِ …………… (الحج۔18)۔ یہاں نجوم کا ذکر شمس و قمر کے ساتھ ہے اور شجر کا ذکر پہاڑوں اور جانوروں کے ساتھ، اور فرمایا گیا ہے کہ یہ سب اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں |