Ayats Found (3)
Surah 22 : Ayat 32
ذَٲلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ
یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے1 تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے2
2 | یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے جبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے ، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے ، یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اتر آیا ہے |
1 | یعنی خدا پرستی کی علامات ، خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز، روزہ ، حج وغیرہ ، یا اشیاء ہوں جیسے مسجد اور ہَدی اونٹ وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، المائدہ ، حاشیہ 5 |
Surah 22 : Ayat 36
وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَـٰهَا لَكُم مِّن شَعَـٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌۖ فَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّۚ كَذَٲلِكَ سَخَّرْنَـٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (قربانی کے) اونٹوں کو1 ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے2، پس انہیں کھڑا کر کے3 ان پر اللہ کا نام لو4، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں5 تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو6
6 | یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا ، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کر کے تمہیں بخشی ہے |
5 | ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گر کر ٹھیر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نکل جائے۔ ابو داؤد ، ترمذی اور مسنداحمد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ما قُطع (اَو ما بان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’ جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے |
4 | یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے ، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ آکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت 36 میں فرمایا : فَاذْکُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا ، ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت 37 میں فرمایا : لِتَکَبِّرُ وا اللہ عَلٰی مَا ھَدٰ کُمْ، ’’ تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً 1 :۔ بِسْمِ اللہِ وَللہُ اکْبَر ، اَللہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ‘‘۔ 2 :۔ اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ اللہمّ منک ولک ، ’’ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خدایا تیار ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ’’۔ 3 :۔ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَجِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَا یَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰ لِکَ اَمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ میں نے یکسو ہو کر اپنی رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رَبّ العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہیں لیے حاضر ہے |
3 | واضح رہے کہ اونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کرکے کی جاتی ہے۔ اس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَواف کا۔ ابن عباس ، مجاہد، ضحاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابن عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا : البعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ و سلم۔ ’’ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر ، یہ ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اسے کھڑا کرتے تھے ، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے : اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا ، ’’ جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں ‘‘۔ یہ اسی صورت میں بولیں گے جب کہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے |
2 | یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے ، نہ صرف شکر نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں ، جن کی کھالوں اور بالوں اورخون اور ہڈی ، غرض یک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں |
1 | اصل میں لفظ ’’بدن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کر سکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ : امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان نشرک فی الاضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں ، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گاۓ سات آدمیوں کے لیے‘‘ |
Surah 22 : Ayat 37
لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْۚ كَذَٲلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَٮٰكُمْۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُحْسِنِينَ
نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے1 اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو2 اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو3
3 | یہاں سے تقریر کا رخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے۔ سلسلہ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گۓ ہیں اور ان پر زیارت حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکے میں ان پر کیے گۓ تھے ، بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکے سے نکل گۓ تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے اٹھیں۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے ، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تاکہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصۓ میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی جارہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا |
2 | یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اورعلت کی طرف اشارہ ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے ، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں ، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے ، اس کے حقوق مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں ، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ : اللہھم منک ولک، ’’ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ‘‘۔ اس مقام پرجان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے ، اور صرف مکے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے ، بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے ، جہاں بھی وہ ہوں ، تا کہ وہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں۔ حج کی سعادت میرے سر نہ آئی نہ سہی ، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوار بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود مدینہ طیبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من و جد سعۃ فلم یُصَّحِّ فلا یقربن مصَلّا نا۔ : جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔ ترمذی میں ابن عمرؓ کی روایت ہے : اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بقر عید کے روز فرمایا: من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُدومن ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے ، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔ مسلم میں جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینے میں بقرعید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں ، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھر اعادہ کریں۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بقرعید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں ، یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام محمد، اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوست بھی، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر اما شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ سرف سنت مسلمین ہے ، اور سفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی |
1 | جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے ، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں ، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکر نعمت کے جزبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہ بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : ان اللہ لا ینظر الیٰ صور کم ولا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلو بکم و اعمالکم ، ’’ اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اوراعمال دیکھتا ہے |