Ayats Found (1)
Surah 64 : Ayat 16
فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُواْ وَأَطِيعُواْ وَأَنفِقُواْ خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو1، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں2
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحشر، حاشیہ 19 |
1 | قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : اِتَّقُو ا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ، ’’ اللہ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘‘ (آل اعمران 102)۔ دوسری جگہ فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا، ’’ اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا ‘‘ (البقرہ۔ 286)۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ’’جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ ان تینوں آیتوں کو ملا کر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک تقویٰ کی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالٰی کے احکام بجا لانے چاہییں اور اس کی نا فرمانی سے بچنا چاہیے۔ اس معاملہ میں اگر وہ خود تساہل سے کام لے گا تو مواخذہ سے نہ بچ سکے گا۔ البتہ جو چیز اس کی مقدرت سے باہر ہو گی (اور اس کا فیصلہ اللہ ہی بہتر کر سکتا ہے کہ کیا چیز کس کی مقدرت سے واقعی باہر تھی) اس کے معاملہ میں اس سے باز پرس نہ کی جاۓ گی |