Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 225
لَّا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا1، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی باز پرس وہ ضرور کرے گا اللہ بہت در گزر کرنے والا اور بردبار ہے
1 | یعنی بطور تکیہ کلام کے بلا ارادہ جو قسمیں زبان سے نکل جاتی ہیں، ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ ان پر مواخذہ ہو گا |
Surah 5 : Ayat 89
لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلْأَيْمَـٰنَۖ فَكَفَّـٰرَتُهُۥٓ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَـٰكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۚ ذَٲلِكَ كَفَّـٰرَةُ أَيْمَـٰنِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْۚ وَٱحْفَظُوٓاْ أَيْمَـٰنَكُمْۚ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
تم لوگ جو مہمل قسمیں کھا لیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اُن پر ضرور تم سے مواخذہ کرے گا (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو1 اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو2 اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو
2 | قسم کی حفاظت کے کئی مفہُوم ہیں: ایک یہ کہ قسم کو صحیح مَصْرف میں استعمال کیا جائے، فضول باتوں اور معصیت کے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جب کسی بات پر آدمی قسم کھائے تو اسے یاد رکھے، ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے وہ اُسے بھُول جائے۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کرے۔ تیسرے یہ کہ جب کسی صحیح معاملہ میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پُورا کیا جائے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کیا جائے |
1 | چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو اپنے اُوپر حرام کر لینے کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسہ میں قسم کا حکم بھی بیان فرما دیا کہ اگر کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ قسم کا لفظ نِکل گیا ہے تو اس کی پابندی کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، اور اگر جان بُوجھ کر کسی نے قسم کھائی ہے تو وہ اُسے توڑ دے اور کفّارہ ادا کر دے، کیونکہ جس نے کسی معصیت کی قسم کھائی ہو اسے اپنی قسم پر قائم نہ رہنا چاہیے ( ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۴۳ و ۲۴۴ – نیز کفّارہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۱۲۵ |
Surah 33 : Ayat 5
ٱدْعُوهُمْ لِأَبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٲنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَمَوَٲلِيكُمْۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُم بِهِۦ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے1 اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں2 نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو3 اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے4
4 | اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا۔ ان پر اب کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نا دانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر بِلا ارادہ کوئی ایسی بات کی جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو، مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو، تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالٰی سزا نہ دے گا۔ |
3 | مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ماں، بیٹی، بہن،بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو اِن رشتوں کی ہے، اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو اِن رشتہ داروں کے ہیں، اور اس کے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں، یہ یقیناً قابلِ اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی۔ |
2 | یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے |
1 | اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمدؐ کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا۔ بخاری‘ مسلم‘ ترمذی‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمدؐ کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھویعلم انہ غیر ابیہ فالجنتہ علیہ حرام۔’’جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بٹیا کہا‘ درآن حالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے‘ اس پر جنت حرام ہے‘‘۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں۔جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ |