Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 210
هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأْتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِى ظُلَلٍ مِّنَ ٱلْغَمَامِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
(اِن ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو) کیا اب وہ اِس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے سا تھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے1؟ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں
1 | یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دُنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے انبیا کی بعثت میں ، کتابوں کی تنزیل میں ، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہےاور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اُس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکُن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جُھکادینے کی ساری قدر و قیمت اُسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشمِ سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تختِ جلال پر متمکّن ہے ، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے ، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اُس کے قبضہء قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بد تر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جراٴت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مُہلت بس اُسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مُہلت ہے نہ آزمائش ، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے |
Surah 3 : Ayat 109
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں
Surah 8 : Ayat 44
وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ ٱلْتَقَيْتُمْ فِىٓ أَعْيُنِكُمْ قَلِيلاً وَيُقَلِّلُكُمْ فِىٓ أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولاًۗ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اُسے اللہ ظہُور میں لے آئے، اور آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں
Surah 22 : Ayat 76
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْۗ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے1، اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں2
2 | یعنی تدبیر امر بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات کے کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تو اس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کرلینے پر قادر نہیں ہیں |
1 | یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاءکو بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے ، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے ، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے ،لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کوبھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے |
Surah 35 : Ayat 4
وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
اب اگر (اے نبیؐ) یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں1 (تو یہ کوئی نئی بات نہیں)، تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، اور سارے معاملات آخرکار اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے ہیں2
2 | یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہو جائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا |
1 | یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہو گئے ہو |
Surah 57 : Ayat 5
لَّهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ
وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں
Surah 22 : Ayat 41
ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَمَرُواْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْاْ عَنِ ٱلْمُنكَرِۗ وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے1 اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے2
2 | یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت کسے سونپا جائے در اصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں۔ مگر جو طاقت ایک ذرا سے بیج کو تناور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو بیزم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے ، اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا ان کو کون ہلا سکے گا انہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونۂ عبرت بن جائیں ، اور جنہیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ بھی کبھی اٹھ سکیں گے انہیں ایسا سر بلند کرے کہ دنیا میں ان کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں |
1 | یعنی اللہ کے مدد گار اور اس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جاۓ تو ان کا ذاتی کر دار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجاۓ اقامت صلوٰۃ ہو، ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجاۓ اسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کار فرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے |
Surah 31 : Ayat 22
۞ وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰۗ وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے1 اور عملاً وہ نیک ہو2، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے
2 | یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تووہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے۔ |
1 | یعنی پوری طرح اپنے آپ کواللہ کی بندگی میں دے دے۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اوراسی کی دی ہوئی ہدایات کواپنی پوری زندگی کا قانون بنائے۔ |
Surah 42 : Ayat 53
صِرَٲطِ ٱللَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلْأُمُورُ
اُس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں1
1 | یہ آخری تنبیہ ہے جو کفار کو دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے کہا اور تم نے سن کر رد کر دیا، اس پر بات ختم نہیں ہو جانی ہے ۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور آخر کار اسی کے دربار سے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کا کیا انجام ہونا چاہیے |