Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 164
إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں1
1 | یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کو خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو |
Surah 45 : Ayat 5
وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ ءَايَـٰتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں1، اور اُس رزق میں2 جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے3، اور ہواؤں کی گردش میں 4بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
4 | ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم۔ کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب۔ کبھی بارش لانے والی ہو چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کر دیے ہیں، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے |
3 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص 270۔ 271۔455۔ 456۔479۔ 489۔590۔748۔ 749۔763۔جلد چہارم، یٰس حواشی 26 تا 31 |
2 | رزق سے مراد یہاں بارش ہے، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے |
1 | رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری با قاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے،پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پاۓ جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے، اور ان دونوں کرّوں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے، اور وہ کوئی اندھا بہرا بے حکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بے شمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص 296۔ 297۔جلد سوم،ص، 606۔ 659۔ جلد چہارم، لقمان، آیت 29، حاشیہ 50۔ یٰس، آیت 37، حاشیہ 32) |