Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 165
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـٰٓئِفَ ٱلْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ ٱلْعِقَابِ وَإِنَّهُۥ لَغَفُورٌ رَّحِيمُۢ
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے1 بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے
1 | اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرّف کے اختیارات بخشے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدُود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرّف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوّتِ کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرّف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیّت یا ناقابلیّت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دُوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے |
Surah 7 : Ayat 167
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ ٱلْعِقَابِۖ وَإِنَّهُۥ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا1 کہ "وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے،" یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ در گزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے
2 | یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جا رہی تھی۔ چنانچہ یہودیوں کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں پھر یہی تنبیہ مسیح علیہ السلام نے انہیں کی جیسا کہ انجیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک بین شہادت ہے کہ اُس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو |
1 | اصل میں لفظ تَاذَّن استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو نوٹس دینے یا خبردار کر دینے کا ہے |