Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 202
أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُواْۚ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی
Surah 24 : Ayat 39
وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَعْمَـٰلُهُمْ كَسَرَابِۭ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ ٱلظَّمْـَٔـانُ مَآءً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَهُۥ لَمْ يَجِدْهُ شَيْــًٔا وَوَجَدَ ٱللَّهَ عِندَهُۥ فَوَفَّـٰهُ حِسَابَهُۥۗ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا1 ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی2
2 | اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں ، اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان ، اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہوں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھاۓ اس کی طرف پیاس بھانے کی امید لیے ہوۓ دوڑتا چلا جاتا ہے ،اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفر طے کرتے چلے جا رہے ہو۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جاۓ گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو ، بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا ، اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے |
1 | یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حالت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے ، یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں ، خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں |
Surah 3 : Ayat 19
إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُۗ وَمَا ٱخْتَلَفَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ بَغْيَۢا بَيْنَهُمْۗ وَمَن يَكْفُرْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے1 اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا2 اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے
2 | مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دُنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دُنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوعِ انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصِل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اُصُول اور احکام میں ردّو بدل کر ڈالا |
1 | یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظامِ زندگی اور ایک ہی طریقہٴ حیات صحیح و درست ہے، اوروہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبُود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپر د کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے، بلکہ اُس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے۔ اسی طرزِ فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اِس اسلام کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کو جائز تسلیم نہ کرے۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بُت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نِری بغاوت ہے |
Surah 3 : Ayat 199
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ لَمَن يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَـٰشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلاًۗ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اوراُس کتاب پربھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں، اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا
Surah 5 : Ayat 4
يَسْــَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمْۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ ٱلْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُۖ فَكُلُواْ مِمَّآ أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهِۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں 1اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو2، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو3، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
3 | یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کُتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاو ٔ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“۔ پھر انہوں نے پُوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کُتّا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کُتّا وہاں موجود ہے ؟ آپ ؐ نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا نہ کہ دُوسرے کُتّے پر“۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے |
2 | شکاری جانوروں سے مُراد کُتّے، چیتے، باز، شِکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سَدھائے ہوئے جانور کی خصُوصیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑ ا ہوا جانور حرام ہے اور سَدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصّہ بھی وہ کھا لے تو بقیّہ دوتہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سےیہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے |
1 | اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیّت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیّت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلا ل اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنےلگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنُوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیّت کی اصلاح کرتا ہے۔ پُوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلا ل ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجُز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصُول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وُسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حِلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلا ل ہو گئی۔ حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جُو چیزیں اُصُولِ شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذّب انسان نے بالعمُوم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے |
Surah 14 : Ayat 51
لِيَجْزِىَ ٱللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
یہ اِس لیے ہوگا کہ اللہ ہر متنفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے گا اللہ کوحساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
Surah 40 : Ayat 17
ٱلْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسِۭ بِمَا كَسَبَتْۚ لَا ظُلْمَ ٱلْيَوْمَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
(کہا جائے گا) آج ہر متنفس کو اُس کمائی کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کی تھی آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا1 اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے2
2 | مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو بیک وقت دیکھ رہا ہے، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے، اور کوئی چیز اس کی توجہ کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکے، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا۔ |
1 | یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا ڈالی جائے۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے زیادہ سزا دے دی جائے۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کے سامنے صاف بری ہو جائے۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا۔ |
Surah 13 : Ayat 41
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِى ٱلْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَاۚ وَٱللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِۦۚ وَهُوَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آ رہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں؟1 اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے و الا نہیں ہے، اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
1 | یعنی کیا تمہارے مخلافین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے اِن پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ یہ اِن کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ”ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔ کیونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کےساتھ ہوتا ہے ، اس لیے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں |