Ayats Found (5)
Surah 7 : Ayat 74
وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ ٱلْجِبَالَ بُيُوتًاۖ فَٱذْكُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو1 پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو2"
2 | یعنی عاد کے انجام سے سبق لو۔جس خدا کی قدرت نے اُس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جا نشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲) |
1 | ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جو ں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نےانجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی |
Surah 15 : Ayat 82
وَكَانُواْ يَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا ءَامِنِينَ
وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے
Surah 26 : Ayat 149
وَتَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا فَـٰرِهِينَ
تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں عمارتیں بناتے ہو1
1 | جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَا بُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ، ’’ وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْ نَ مِنْ سُھُوْ لِھَا قُصُوْراً۔ (الاعراف۔آیت 74)۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے۔ دوری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء (جسے عہد نبوی وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے۔ آبادی بارے نام ہے۔ روئیدگی بہت کم ہے۔ چند کنوئیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے (اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے )۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوۓ تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آۓ جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گۓ ہیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے (ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں )۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوۓ تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30۔40۔ میل اندر تک ملتے چلے گۓ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل فورا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر، اور اردن کی ریاست میں پٹرا( Petra) کے مقام پر بھی ملیں۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے (ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں )۔ انگریز مستشرق ڈاٹی (Daughty) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ، نبطیوں کی نائی ہوئی عمارات ہیں۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا، اور پھر ایلورہ میں (جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا |
Surah 26 : Ayat 128
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ ءَايَةً تَعْبَثُونَ
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو1
1 | یعنی محض اپنی عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسی علی شان عمارتیں تعمیر کرتے ہو جن کا کوئی مصرف نہیں ، جن کی کوئی حاجت نہیں ، جن کا کوئی فائدہ اس کے سوا نہیں ہ وہ بس تمہاری دولت و شوکت کی نمود کے لیے ایک نشانی کے طور پر کھڑی رہیں |
Surah 26 : Ayat 129
وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ
اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے1
1 | یعنی تمہاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگر چہ استعمال کے لیے ہیں ، مگر ان کو شاندار، مزیَّن اور مستحکم بنانے میں تم اس طرح اپنی دولت، محنت اور قابلیتیں صرف کرتے ہو جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنے کا سامان کر رہے ہو، جیسے تمہاری زندگی کا مقصد بس یہیں کے عیش کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے ماوراء کوئی چیز نہیں ہے۔ جس کی تمہیں فکر ہو۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ شاندار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعلن ہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہو سکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورت حال تو ایک قوم میں رونما ہی اس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی اور دوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ اوریہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظام تمدن فاسد ہو جاتا ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی تعمیرات پر جو گرفت کی اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ ان کے نزدیک صرف یہ عمارتیں ہی بجائے خود قابل اعتراض تھیں ، بلکہ در اصل وہ بحیثیت مجموعی ان کے فساد تمدن و تہذیب پر گرفت کر رہے تھے اور ان عمارتوں کا ذکر انہوں نے اس حیثیت سے کیا تھا کہ سارے ملک میں ہر طرف یہ بڑے بڑے پھوڑے اس فساد کی نمایاں ترین علامت کے طور پر ابھرے نظر آتے تھے |