Ayats Found (7)
Surah 13 : Ayat 22
وَٱلَّذِينَ صَبَرُواْ ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِٱلْحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں2 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
2 | یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خوا ہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون اِن احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنو ا و ان اساؤا فلا تظلموا۔ ”تم اپنے طرز ِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ”جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر |
1 | یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الہٰی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے |
Surah 13 : Ayat 24
سَلَـٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اور اُن سے کہیں گے کہ 1"تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو" پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!
1 | اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہےکہ ملائکہ ہر طرف سے آ آ کر ان کو سلام کریں گے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ملائکہ ان کو اس بات کی خوشخبری دیں گے کہ اب تم ایسی جگہ آگئے ہو جہاں تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اب یہاں تم ہر آفت سے، ہر تکلیف سے ہر مشقت سے ، اور ہر خطرے سے اور اندیشے سے محفوظ ہو۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حِجر ، حاشیہ نمبر ۲۹) |
Surah 25 : Ayat 75
أُوْلَـٰٓئِكَ يُجْزَوْنَ ٱلْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُواْ وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَـٰمًا
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل1 منزل بلند کی شکل میں پائیں گے2 آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا
2 | اصل میں لفظ غُرْفَہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند و بالا عمارت کے ہیں ۔ اس کا ترجمہ عام طور پر ’’بالا خانہ‘‘ کیا جاتا ہے جس سے آدمی کے ذہن میں ایک دو منزلہ کوٹھے کی سی تصویر آ جاتی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان جو بڑی سے بڑی اور اونچی سے اونچی عمارتیں بناتا ہے ، حتّیٰ کہ ہندوستان کا روضہ تاج اور امریکہ کے ’‘ فلک شگاف‘‘ (Sky-scrapers) تک جنت کے ان محلات کی محض ایک بھونڈی سی نقل ہیں جن کا ایک دھندلا سا نقشہ اولاد آدم کے لا شعور میں محفوظ چلا آتا ہے |
1 | صبر کا لفظ یہاں اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ دشمنان حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا ۔ دین حق کو قائم اور سربلندی کرنے کی جدو جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا ۔ ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہ راست پر ثابت قدم رہنا ۔ شیطان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرغم فرض کو بجا لانا، حرم سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا ۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دینا اور نیکی و دوستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا۔ غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا کی دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے |
Surah 25 : Ayat 76
خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام
Surah 29 : Ayat 58
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ ٱلْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ نِعْمَ أَجْرُ ٱلْعَـٰمِلِينَ
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے1
1 | یعنی اگر ایمان اور نیکی کے راستہ پر چل کر بالفرض تم دنیا کی ساری نعمتوں سے محروم بھی رہ گئے اور دنیوی نقطہ نظر سے سراسر ناکام بھی مرے تو یقین رکھو کہ اس کی تلافی بہر حال ہو گی اور نری تلافی ہی نہ ہو گی بلکہ بہرین اجر نصیب ہو گا۔ |
Surah 29 : Ayat 59
ٱلَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں2
2 | یعنی جنہوں نے بھروسہ اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار اور اپنے کنبے قبیلے پر نہیں بلکہ اپنے رب پر کیا۔ جو اسبابِ دنیوی سے قطع نظر کر کے محض اپنے رب کے بھروسے پر ایمان کی خاطر ہر خطرہ سہنے اور ہر طاقت سے ٹکرا جانے کے لیے تیار ہو گئے، اور وقت آیا تو گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ جنہوں نے اپنے رب پر یہ اعتماد کیا کہ ایمان اور نیکی پر قائم رہنے کا اجر اس کے ہاں کبھی ضائع نہ ہوگا اور یقین رکھا کہ وہ اپنے مومن و صالح بندوں کی اس دنیا میں بھی دستگیری فرمائے گا اور آخرت میں بھی ان کے عمل کا بہترین بدلہ دے گا۔ |
Surah 76 : Ayat 12
وَجَزَٮٰهُم بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةً وَحَرِيرًا
اور اُن کے صبر کے بدلے میں1 اُنہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کریگا
1 | یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اورقابلتیں، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کردینا ، ہراس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو ا للہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے ، ہر اس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جوراہ راست پرچلنے میں پیش آئے، ہراس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اس نقصان اور رنج اوراذیت کوانگیزکرجانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کےاس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کر ناکہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنےکے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔ یہ ہروقت کا صبر ہے، دائمی صبر ہے۔ ہمہ گیرصبر ہے اور عمر بھرکا صبر ہے۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، البقرہ حاشیہ 60۔ آل عمرا، حواشی 13، 107، 131۔ الانعام، حاشیہ 23۔ جلد دوم، الانفال، حواشی 37، 47، یونس ، حاشیہ 9۔ ہود، حاشیہ 11۔ الرعد، حاشیہ 39۔ النحل، حاشیہ 98۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ 40۔ الفرقان، حاشیہ 94۔ القصص، حواشی 75، 100، العنکبوت، 97۔ جلد چہارم، لقمان، حواشی 29، 56۔ السجدہ، حاشیہ 37۔ الاحزاب، حاشیہ 58۔ الزمر، حاشیہ 32۔ حم السجدہ، حاشیہ 38 ۔ الشوری، حاشیہ 53) |