Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 165
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِۗ وَلَوْ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذْ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ أَنَّ ٱلْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعَذَابِ
(مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے اِن کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں1 اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں2 کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے
2 | یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو |
1 | یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں اُن میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں ، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالٰی کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا اُن میں سے بعض حقوق یہ لوگ اُن دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت پر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اُسی کو مقتدرِ اعلٰی مانیں، اُسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جُھکائیں، اُسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں، اُسی کو مدد کے لیے پکاریں، اُسی پر بھروسہ کریں، اُسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اُسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے ، ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے، ان کو امر ونہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختا ر سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رُجوع کریں۔ جو شخص خدا کی اِن صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے ، اور اُس کے اِن حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اُسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ اِن صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے |
Surah 8 : Ayat 52
كَدَأْبِ ءَالِ فِرْعَوْنَۙ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ كَفَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ فَأَخَذَهُمُ ٱللَّهُ بِذُنُوبِهِمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دُوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے
Surah 11 : Ayat 66
فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَـٰلِحًا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْىِ يَوْمِئِذٍۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْعَزِيزُ
آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالحؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اُس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا1 بے شک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے
1 | جزیرہ نمائے سینا میں جو روایات مشہور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ثمود پر عذاب آیا تو حضرت صالحؑ ہجرت کر کے وہاں سے چلے گئے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ والے پہاڑ کے قریب ہی ایک پہاڑی کا نام نبی صالح ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہی جگہ آنجناب کی جائے قیام تھی |
Surah 22 : Ayat 40
ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَـٰرِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّآ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَٲمِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَٲتٌ وَمَسَـٰجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسْمُ ٱللَّهِ كَثِيرًاۗ وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے1 صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے 2"ہمارا رب اللہ ہے" اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں3، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں4 اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے5 اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے
5 | یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دین حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ در اصل اللہ کے مدد گار ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، آل عمران، حاشیہ 50 |
4 | یعنی اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا ، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست، اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِالْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ‘‘۔(آیت 251) |
3 | اصل میں سَوَأمِعُ اور بِیَعٌ اور سَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیررہتے ہوں۔ بیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلوات سے مرد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute) اور (Salutation) اسی سے نکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو |
2 | جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گۓ اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں : حضرت صہیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آۓ تھے اور اب خوب مال دار ہو گۓ ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گۓ اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت ام سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مغیرہ (ام سلمہ کے خاندان ) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گۓ۔ پھر بنی عبدالاسد (ابو سلمہ کے خاندان والے ) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے ، اسے ہمارے حوالے کرو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں ، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جاری تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوۓ ڈرتے تھے۔ عیاش بن ربیعہ ، ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گۓ۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’ اے اہل مکہ۔ اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے ‘‘۔ کافی مدت تک یہ بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کی خیریت سے نہ نکلنے دیا |
1 | یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورہ حج کا یہ حصہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے |
Surah 22 : Ayat 74
مَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ
اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے
Surah 33 : Ayat 25
وَرَدَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُواْ خَيْرًاۚ وَكَفَى ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلْقِتَالَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے
Surah 40 : Ayat 22
ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَكَفَرُواْ فَأَخَذَهُمُ ٱللَّهُۚ إِنَّهُۥ قَوِىٌّ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
یہ ان کا انجام اس لیے ہوا کہ ان کے پاس اُن کے رسول بینات1 لے کر آئے اور انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا آخر کار اللہ نے ان کو پکڑ لیا، یقیناً وہ بڑی قوت والا اور سزا دینے میں بہت سخت ہے
1 | مبیّنات سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، ایسی نمایاں علامات اور نشانیاں جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر شاہد تھیں۔ دوسرے، ایسی روشن دلیلیں جو ان کی پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں۔ تیسرے، زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ جان سکتا تھا کہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا |
Surah 42 : Ayat 19
ٱللَّهُ لَطِيفُۢ بِعِبَادِهِۦ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْعَزِيزُ
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے1 جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے2، وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے3
3 | یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے ، یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے ، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے |
2 | مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جاۓ۔ اگر چہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے ، مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز۔ کسی ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے |
1 | اصل میں لفظ لَطِیْفٌ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم ’’مہربان‘‘سے ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں ، بلکہ تمام بندے ہیں ، یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بندوں پرعام ہے |
Surah 51 : Ayat 58
إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ
اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست1
1 | اصل میں لفظ ’’متین‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں مضبوط اور غیر متزلزل، جسے کوئی ہلا نہ سکتا ہو |
Surah 57 : Ayat 25
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلْقِسْطِۖ وَأَنزَلْنَا ٱلْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥ وَرُسُلَهُۥ بِٱلْغَيْبِۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں1، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں2 یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے3
3 | یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پروہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجاۓ طریق کار یہ اختیار فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کیا ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوۓ ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے |
2 | لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا سَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَالْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَاَزْوَاجٍ (الزمر، 6)۔ ’’ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ ‘‘چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ‘‘، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جاۓ اور وہ قوت فراہم کی جاۓ جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے |
1 | اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آۓ وہ سب تین چیزیں لے کر آۓ تھے : (1) بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوۓ لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔ (2) کتاب، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔ (3) میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔ ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جاۓ جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے دردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجاۓ معاون و مدد گار ہوں |