Ayats Found (4)
Surah 3 : Ayat 14
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٲتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَـٰطِيرِ ٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ وَٱلْحَرْثِۗ ذَٲلِكَ مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔـابِ
لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے
Surah 59 : Ayat 6
وَمَآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْهُمْ فَمَآ أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُۥ عَلَىٰ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور جو مال اللہ نے اُن کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے1، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے2
2 | یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو،اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں،ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جاۓ۔ اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے،اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جاۓ جو اس آیت میں بیان کیے گۓ ہیں۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جاۓ، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جاۓ جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ (تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کار روائی Warlike operations لہٰذا جو مال براہ راست اس کار روائی سے ہاتھ آۓ ہوں وہ غنیمت ہیں۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کار روائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں۔ یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہاۓ اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کار روائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ وغیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبو ا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حجر من المسلمین و انزک الاَرَضِین و الا نھار لعُمّا لھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین۔ ’’ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لاۓ ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آۓ‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف صفحی 24۔کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، صفحات 27۔ 28۔ 148 اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آۓ وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ‘‘ (یحیٰ بن آدم، صفحہ 27)۔ اور امام ابو یوست فرماتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آۓ اور جو متاع اور اسلحی اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائین وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ‘‘ (کتاب الخراج،صفحہ 18)۔ یہی راۓ یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے (صفحہ 27)۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا، ایک صاحب، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جاۓ، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینی حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جاۓ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنت میں فوج کے ہاتھ آئیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْو ۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزادھا و تصیر الدار دارلاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ۔ ’’ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو، وہ غنیمت ہے، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دارالاسلام بن گیا ہو، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے۔اس میں خمس نہیں ہے۔’’ (کتاب الاموال، صفحہ 254 )۔ غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رُعب اور ہیبت ہی کہ وجہ سے ہوئی ہو۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسرے صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ فقہاۓ اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کہونکہ وہ فَمَا ادْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکا بٍ کی تعریف میں نہیں آتے۔ رہے دوسری قسم کے اموال،تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں، کیوں کہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے |
1 | اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جاۓ۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے : مَا اَفَآ ءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ (جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، در اصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں۔ وہ اگر ان پر قابض (متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے (پلٹا کر لاۓ ہوۓ اموال) قرار دیا گیا ہے |
Surah 90 : Ayat 5
أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ
کیا اُس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا1؟
1 | یعنی کیا یہ انسان جو ان حالات میں گھرا ہوا ہے، اس غرے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے، کوئی بالاتر اقتدار اس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا، ہوا کا ایک طوفان، دریاؤں اور سمندروں کی ایک طغیانی اسے یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے با اقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لا گراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اسی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی ان سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ اس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا |
Surah 90 : Ayat 6
يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالاً لُّبَدًا
کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا1
1 | ’’ أَنْفَقْتُ مَالًا لُّبَدًا ‘‘ ’’میں نے ڈھیر سارا مال خرچ کر دیا‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ‘‘ کہا جس کے لفظی معنی ہی ’’میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کر دیا‘‘، یعنی لٹا دیا یا اڑا دیا۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اس نے خرچ کیا وہ اس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لٹا دینے یا اڑا دینے کی اسے کوئی پروا نہ تھی۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا۔ شادی اور غمی کی رسمو ں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا۔ جوے میں ڈھیروں دولت ہار دینا۔ جوا جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا۔ تقریبات میں بے تحاشا کھانے پکوانا اور اذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے، یا اپنے ڈیرے پر کھلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہو جائے کہ فلاں رئیس کا دسترخواں بڑا وسیع ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے۔ انہی پر ان کی مدح کے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے |