Ayats Found (2)
Surah 102 : Ayat 1
أَلْهَـٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے1
1 | اصل میں ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جا سکتا ہے۔ ’’ اَلْھٰکُمُ ۔ لَہْو ‘‘ سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولالا جاتا ہے جس سے آدمی کو دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں ’’ مُنہمِک ‘‘ ہو کر دوسری ا ہم ترین چیزوں سے غافل ہو جائے۔ اس مادے سے جب الھاکم کا لفاظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا، جو اس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے۔ اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو۔ اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کر دیا ہے۔ ’’ تَکاثُر ‘‘کثرت سے ہے، اور اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔ پس ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘کے معنی ہوئے ’’ تکاثُر ‘‘نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کر دیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ میں کس چیز سے غافل ہو جانا مراد ہے، اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ (تم کو غافل کر دیا ہے) کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہو جاتا ہے۔ تکاثر کے معنی معدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش، اسبابِ لذت اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جتانا اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ، اور دوسرے کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افراد پر بھی سوار ہے اور ا قوم پر بھی۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر ‘‘میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کس چیز سے غافل کر دیا ہے، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کر دیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہو گئے ہیں ۔ عاقبت سے غافل ہو گئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہو گئے ہیں۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ سے زیادہ مطلوب ہیں، اس ہوس رانی میں غرق ہو کر وہ اس بات سے بالکل غافل ہو گئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت ، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرےسے آگے نکل جانے کی دوڑ جا ری ہے، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کر دینے کا سرو سامان ہے۔ غرض تکاثر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالاتکر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے |
Surah 102 : Ayat 2
حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ
یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو1
1 | یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی |