Ayats Found (22)
Surah 11 : Ayat 88
قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّى وَرَزَقَنِى مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاۚ وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَآ أَنْهَـٰكُمْ عَنْهُۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا ٱلْإِصْلَـٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُۚ وَمَا تَوْفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
شعیبؑ نے کہا 1"بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں2 میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
2 | یعنی میری سچائی کا تم اس بات سے اندازہ کر سکتے ہو کہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہوں اسی پر خود عمل کرتا ہوں اگر میں تم کو غیر اللہ کے آستانوں سے روکتا اور خود کسی آستانے کا مجاور بن بیٹھا ہوتا تو بلاشبہ تم یہ کہہ سکتے تھے کہ اپنی پیری چمکانے کے لیے دوسری دو کانوں کی ساکھ بگاڑنا چاہتا ہے اگر میں تم کو حرام کے مال کھانے سے منع کرتا اور خود اپنے کاروبار میں بے ایمانیاں کر رہا ہوتا تو ضرور تم یہ شبہہ کر سکتے تھے کہ میں اپنی ساکھ جمانے کے لیے ایمانداری کا ڈھول پیٹ رہا ہوں لیکن تم دیکھتے ہو کہ میںخود ان برائیوں سے بچتا ہوں جن سے تم کو منع کرتا ہوں میری اپنی زندگی ان دھبوں سے پاک ہے جن سے تمہیں پاک دیکھنا چاہتا ہوں میں نے اپنے لیے بھی اپسی طریقہ کو پسند کیا ہے جس کی تمہیں دعوت دے رہا ہوں یہ چیز اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں اپنی اس دعوت میں صادق ہوں |
1 | یونس علیہ السلام (جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن ۸۶۰ – ۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے) اگر چہ اسرائیلی نبی تھے، مگر ان کو اشور(اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کی یہاں قوم یونس کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ”یونس نبی“ کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبًا ۶۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا |
Surah 27 : Ayat 75
وَمَا مِنْ غَآئِبَةٍ فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ
آسمان و زمین کی کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جو ایک واضح کتاب میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو1
1 | یہاں کتاب سےمراد قرآن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا وہ ریکارڈ ہے جس میںذرّہ ذرّہ ثبت ہے |
Surah 2 : Ayat 155
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَىْءٍ مِّنَ ٱلْخَوْفِ وَٱلْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ ٱلْأَمْوَٲلِ وَٱلْأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے
Surah 3 : Ayat 186
۞ لَتُبْلَوُنَّ فِىٓ أَمْوَٲلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ أَذًى كَثِيرًاۚ وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو1 تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
1 | یعنی اُن کے طعن و تشنیع، اُن کے الزامات ، اُن کے بیہُودہ طرزِ کلام اور اُن کی جھُوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اُتر آ ؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں |
Surah 5 : Ayat 48
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًاۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی1 اور اس کی محافظ و نگہبان ہے2 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ3 کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو4
4 | یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: (۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔ (۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں،اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیےچڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیا کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳)تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالٰی کی منظوری حاصل ہو۔(۴)جواختلافات انسانوں نے اپنے جمود تعصب،ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپچ سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔آخری فیصلہ اللہ تعالٰی خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں’’حق‘‘ کا جو ہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر |
3 | یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلہ ء تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانین ِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے |
2 | اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کےاندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے |
1 | یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں |
Surah 6 : Ayat 165
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـٰٓئِفَ ٱلْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ ٱلْعِقَابِ وَإِنَّهُۥ لَغَفُورٌ رَّحِيمُۢ
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے1 بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے
1 | اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرّف کے اختیارات بخشے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدُود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرّف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوّتِ کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرّف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیّت یا ناقابلیّت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دُوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے |
Surah 8 : Ayat 28
وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَآ أَمْوَٲلُكُمْ وَأَوْلَـٰدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں1 اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے
1 | انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سےاس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمائش میں ۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پر چہ ہے۔ اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا ور حدود کا لحاظ کرتے ہو، کہاں تک اپنے نفس کو جواِن دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتاہے، اسی طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے |
Surah 64 : Ayat 15
إِنَّمَآ أَمْوَٲلُكُمْ وَأَوْلَـٰدُكُمْ فِتْنَةٌۚ وَٱللَّهُ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ
تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال، حاشیہ 23۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جسے طبرانی نے حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت کیا ہے کہ ’’ تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کر دے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے، بلکہ تیرا اصل دشمن، ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صُلب سے پیدا ہوا ہے، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ‘‘۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے یہاں بھی اور سورہ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کا غالب رکھنے میں کامیاب رہو۔ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے |
Surah 17 : Ayat 6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ ٱلْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَـٰكُم بِأَمْوَٲلٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَـٰكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا
اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی1
1 | یہ اشارہ ہے اُس مہلت کی طرف جو یہودیوں(یعنی اہل یہودیہ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اُٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والاتھا۔ اُس نے اُن لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے، اور ان لوگوں کو بھی توبہ وانابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے۔ آخر کار رحمتِ الہٰی ان کی مدد گار ہوئی۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا۔سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس(خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ سائرس نے یہودیوں کی جیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں، مزاحمت کرتی رہیں۔ آخر داریوس(وارا)اوّل نے سن ۵۲۲ ق م یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرُو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حِجِّی نبی، زکریاہ نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکلِ مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر سن۴۵۷ ق م میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عُزیر(عزرا)یہودیہ پہنچے اور شاہِ ایران ارتخششتا(ارٹا کسر سزیا اردشیر)نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ: ”تو اپنے خدا کی اُس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کراتا کہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں، اور تم اُس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے، خواہ موت ہو، یا جلاوطنی، یا مال کی ضبطی، یا قید“۔ (عزرا۔باب۸۔آیت۲۵۔۲٦) اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ با ئیبل کی کتب خمسہ کو، جن میں توراة تھی، مرتب کر کے شائع کیا، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے اُن اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، اُن تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے، اور بنی اسرائیل سے از سرِنو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا۔ سن ۴۴۵ ق م میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہِ ایران نے تحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیتُ المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہِ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا۔ ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اُس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانرواانٹیو کس ثالث نے سن ١۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ یہ یونانی فاتح، جو مذہباً مشرک، اور اخلاقاً ابا حیت پسند تھے، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصران کا آلہ کار بن گیا۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ ایک گروہ نے یونانی لباس، یونانی زبان، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا۔ سن ١۵۷ ق م میں انٹیو کس چہارم(جس کا اپنی فائنیس یعنی مظہر خدا)تھا، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ گئی کرنی چاہی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبردستی بُت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراة کا نسخہ رکھیں، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اُٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کشمکش میں یونانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں، اور انہوں نے عملاً مُکّا بی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح ِ دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخرکار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ٦۷ ق م تک قائم رہی۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا۔ انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیرآیت اشارہ کرتی ہے۔ |
Surah 18 : Ayat 46
ٱلْمَالُ وَٱلْبَنُونَ زِينَةُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱلْبَـٰقِيَـٰتُ ٱلصَّـٰلِحَـٰتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلاً
یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی اُمّیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں