Ayats Found (8)
Surah 6 : Ayat 18
وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِۦۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ
وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے
Surah 6 : Ayat 61
وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِۦۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے1، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے
1 | یعنی ایسے فرشتے جو تمہاری ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور تمہاری ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے رہتے ہیں |
Surah 12 : Ayat 39
يَـٰصَـٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ ءَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّارُ
اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟
Surah 13 : Ayat 16
قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ قُلِ ٱللَّهُۚ قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّاۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُۗ أَمْ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلْقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلْخَلْقُ عَلَيْهِمْۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّـٰرُ
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ1 پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟2 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ 3اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟4 کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب!5
5 | اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں”وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“۔ یہ بات کہ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے“، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ”وہ یکتا اور قہار ہے“ ا س تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھہرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے |
4 | اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ |
3 | روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پالیا ہے ، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ |
2 | اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ |
1 | واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد با قی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا ربّ کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ |
Surah 14 : Ayat 47
فَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِۦ رُسُلَهُۥٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ ذُو ٱنتِقَامٍ
پس اے نبیؐ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا1 اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے
1 | اس جملے میں کلام کا رُخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور اُن کے مخالفیں کو نیچا دکھایا۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور اُن لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اُس کے مخالفت کر رہے ہیں |
Surah 38 : Ayat 65
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۟ مُنذِرٌۖ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا ٱللَّهُ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّارُ
(اے نبیؐ) 1اِن سے کہو، 2"میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ، جو یکتا ہے، سب پر غالب
2 | آیت نمبر 4 میں فرمایا گیا تھا کہ یہ لوگ اس بات پر بڑے اچنبھے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک خبردار کرنے والا خود ان کے درمیان سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ان سے کہو میرا کام بس تمہیں خبردار کر دینا ہے۔یعنی میں کوئی فوجدار نہیں ہوں کہ زبردستی تمہیں غلط راستے سے ہٹا کر سیدھے راستے کی طرف کھینچوں۔میرے سمجھانے سے اگر تم نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔بے خبر ہی رہنا اگر تمہیں پسند ہے تو اپنی غفلت میں سرشار پڑے رہو، اپنا انجام خود دیکھ لو گے۔ |
1 | اب کلام کا رُخ پھر اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جس سے تقریر کا آغاز ہوا تھا۔ اِس حصّے کو پڑھتے ہوئے پہلے رکوع سے مقابلہ کرتے جائیے، تاکہ بات پوری سمجھ میں آ سکے۔ |
Surah 39 : Ayat 4
لَّوْ أَرَادَ ٱللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّٱصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ سُبْحَـٰنَهُۥۖ هُوَ ٱللَّهُ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّارُ
اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر لیتا1، پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو)، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب2
2 | یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوتاکہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے، یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے، کسی جنس کا فرد نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اسکی قاہرانہ گرفت میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اللہ تعالٰی سے اس کا کوئی رشتہ ہے۔ |
1 | یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے۔ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی کواللہ برگزیدہ کر لے۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہو گا، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہو جائے، اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے، اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد کی مقتضی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ’’اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے۔ |
Surah 40 : Ayat 16
يَوْمَ هُم بَـٰرِزُونَۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِنْهُمْ شَىْءٌۚ لِّمَنِ ٱلْمُلْكُ ٱلْيَوْمَۖ لِلَّهِ ٱلْوَٲحِدِ ٱلْقَهَّارِ
وہ دن جبکہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہ ہو گی (اُس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے؟1 (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحد قہار کی
1 | یعنی دنیا میں تو بہت سے برخود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد(331۔301) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سرسے اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔ |