Ayats Found (3)
Surah 17 : Ayat 100
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّىٓ إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ ٱلْإِنفَاقِۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ قَتُورًا
اے محمدؐ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے1
1 | یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جارہاہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔ |
Surah 18 : Ayat 16
وَإِذِ ٱعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ فَأْوُۥٓاْ إِلَى ٱلْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِۦ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
اب جبکہ تم ان سے اور اِن کے معبودانِ غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو1 تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سر و سامان مہیا کر دے گا"
1 | جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفسُس ایشیائے کوچک میں بُت پرستی اور جادو گری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوں کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نوید دنیا بھی میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus شرد اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے، جو اگلے رکوع میں آ رہا ہے، کہ ’’اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے‘‘۔ |
Surah 18 : Ayat 82
وَأَمَّا ٱلْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَـٰمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِى ٱلْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُۥ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَـٰلِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَآ أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَۚ وَمَا فَعَلْتُهُۥ عَنْ أَمْرِىۚ ذَٲلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے اِن بچّوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچّے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے1"
1 | اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکراتا، مگر پہلے دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتداۓ عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہٰیہ میں ثابت رہے ہیں۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے، اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جاۓ کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے۔اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے، فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کرتا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے، اور اس کی تصدیق اللہ تعالٰی خود فرما چکا ہے کہ حضرت حضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے۔ مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے، کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالٰی کے ان تکوینی احکام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہٰیہ کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے، اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے، بہرحال وہ گنہ گار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے، احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علماۓ شریعت متفق ہیں، بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی، مجدو الف ثانی، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، جنید بغدادی، سَری سقطی، ابلوحسین النوری، ابو سعید الخر از، ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔(روح المعانی۔ج،16۔ ص 16۔ 18) اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت (نہ کہ شریعت الہٰی تحت) کام کرتے ہیں؟ پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ ’’بندہ‘‘ جس کے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گۓ تھے، انسان تھا۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدً ا مَّنْ عِبَادِ نَا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں، قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء، آیت 26۔ اور سورہ زخرف، آیت 19۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس، عن اُبی بن کعب، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۃً حدیث کو پہچی ہیں۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے، جو اگرچہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جِن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آۓ گا تو انسانی شکل ہی میں آۓ گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جاۓ گا۔ ضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآن اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرً ا سَوِیًّا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا‘‘ حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو رفع کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم ’’خضر‘‘ کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے، یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ راۓ ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ |