Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 215
يَسْــَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَٲلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا
Surah 2 : Ayat 272
۞ لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَٮٰهُمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ ٱللَّهِۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی1
1 | ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہلِ حاجت کی مدد کرنے میں تامّل کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دُور کی گئی ہے۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں ہدایت اُتار دینے کی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہوچکے۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نُور عطا کرے یا نہ کرے۔ رہا دُنیوی مال و متاع سے اُن کی حاجتیں پُوری کرنا، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامّل نہ کرو کہ اُنہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا |
Surah 2 : Ayat 272
۞ لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَٮٰهُمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ ٱللَّهِۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی1
1 | ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہلِ حاجت کی مدد کرنے میں تامّل کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دُور کی گئی ہے۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں ہدایت اُتار دینے کی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہوچکے۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نُور عطا کرے یا نہ کرے۔ رہا دُنیوی مال و متاع سے اُن کی حاجتیں پُوری کرنا، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامّل نہ کرو کہ اُنہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا |
Surah 2 : Ayat 273
لِلْفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحْصِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِى ٱلْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ ٱلْجَاهِلُ أَغْنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَـٰهُمْ لَا يَسْــَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلْحَافًاۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا1
1 | اِس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا، جو تاریخ میں اصحابِ صُفّہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے، جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آگئے تھے۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ حضور جس مہم پر چاہتے انھیں بھیج دیتے تھے، اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ پُورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے، اِ س لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجّہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے |
Surah 7 : Ayat 188
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُۚ إِنْ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے محمدؐ، ان سے کہو 1"میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں"
1 | مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پو چھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی |
Surah 28 : Ayat 24
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰٓ إِلَى ٱلظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّى لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَىَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
یہ سن کو موسیٰؑ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا "پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"
Surah 33 : Ayat 19
أَشِحَّةً عَلَيْكُمْۖ فَإِذَا جَآءَ ٱلْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَٱلَّذِى يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْمَوْتِۖ فَإِذَا ذَهَبَ ٱلْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى ٱلْخَيْرِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَمْ يُؤْمِنُواْ فَأَحْبَطَ ٱللَّهُ أَعْمَـٰلَهُمْۚ وَكَانَ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرًا
جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں1 خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں2 یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے، اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دیے3 اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے4
4 | یعنی اِن کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اُس کے لیے دُشوار ہو |
3 | یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں، جو روزے رکھے، جو زکوٰتیں دیں، اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالٰی کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجرانھیں نہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوٰۃ بھی دیتے تھے، اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے، ان کے بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑے آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا، دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں۔ جہاں خدا اوراس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرارایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ |
2 | لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے، لہٰذا ہم بھی مالِ غنیمت کے حق دار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصّہ، ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں، سب کچھ تم ہی لوگ نہ لُوٹ لے جاؤ۔ |
1 | یعنی اپنی محنتیں، اپنے اوقات، اپنی فکر، اپنے مال، غرض کوئی چیز بھی وہ اُس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے، وہ کسی کام میں بھی کھلے دِل سے اہلِ ایمان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ |
Surah 33 : Ayat 25
وَرَدَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُواْ خَيْرًاۚ وَكَفَى ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلْقِتَالَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے
Surah 38 : Ayat 32
فَقَالَ إِنِّىٓ أَحْبَبْتُ حُبَّ ٱلْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّى حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِٱلْحِجَابِ
تو اس نے کہا 1"میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے" یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہو گئے
1 | اصل میں لفظ خَیْر استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں مال کثیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور گھوڑوں کے لیے بھی مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کو چونکہ راہ خدا میں جہاد کے لیے رکھا تھا، اس لیے انہوں نے ’’خیر‘‘ کے لفظ سے ان کو تعبیر فرمایا۔ |
Surah 50 : Ayat 25
مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبٍ
خیر کو روکنے والا1 اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا2، شک میں پڑا ہوا تھا3
3 | اصل میں لفظ’’مُرِیْب‘‘ استعمال ہوا ہے جس مے دو معنی ہیں۔ ایک، شک کرنے والا۔ دوسرے، شک میں ڈالنے والا۔ اور دونوں ہی معنی یہاں مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود شک میں پڑا ہوا تھا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالتا تھا۔ اس کے نزدیک اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور رسالت اور وحی، غرض دین کی سب صداقتیں مشکوک تھیں۔ حق کی جو بات بھی انبیاء کی طرف سے پیش کی جاتی تھی اس کے خیال میں ہو قابل یقین نہ تھی۔ اور یہی بیماری وہ الہ کے دوسرے بندوں کو لگاتا پھرتا تھا۔ جس شخص سے بھی اس کو سابقہ پیش آتا اس کے دل میں وہ کوئی نہ کوئی شک اور کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتا |
2 | یعنی اپنے ہر کام میں اخلاق کی حدیں توڑ دینے والا تھا۔ اپنے مفاد اور اپنی اغراض اور خواہشات کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا۔ حرام طریقوں سے مال سمیٹتا اور حرام راستوں میں صرف کرتا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا تھا۔ نہ اس کی زبان کسی حد کی پا بند تھی نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم اور زیادتی سے رُکتے تھے۔ بھلائی کے راستے میں صرف رکاوٹیں ڈالنے ہی پر بو نہ کرتا تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھلائی اختیار کرنے والوں کو ستاتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والوں پر ستم ڈھاتا تھا |
1 | خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پاۓ |