Ayats Found (1)
Surah 22 : Ayat 18
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ ٱلنَّاسِۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ ٱلْعَذَابُۗ وَمَن يُهِنِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِن مُّكْرِمٍۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ ۩
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں1 وہ سب جو آسمانوں میں ہیں2 اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان3 اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟4 اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے5، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے6
6 | یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے ، اور سورہ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 157 |
5 | یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے ، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے ، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے ، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جواس نے خود مانگی ہے۔پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سر فراز کر دے |
4 | مطلب یہ ہے کہ اگر چہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائیگا۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے جھکاتا ہے ، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے ، کسی جن، کسی نبی اور ولی ، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اورمعبودیت کا مقام دیا جا سکے ، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکتے۔ کسی قانون بے حاکم اور فطرت بے صانع اور نظام بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلا تا رہے اور قدرت و حکمت کے ہو حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خد اکے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا |
3 | یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بلارادہ اور بطوع و رغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے ، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے ، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے |
2 | یعنی فرشتے ، اَجرام فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات، نباتات ، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد ، حاشیہ 24۔25 ، الجحل، حاشیہ 41۔ 42 |