Ayats Found (27)
Surah 2 : Ayat 198
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَـٰتٍ فَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ ٱلْحَرَامِۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَٮٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں1 پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے2
2 | یعنی جاہلیّت کے زمانے میں خدا کی عبادت کے ساتھ جن دُوسرے مشرکانہ اور جاہلانہ افعال کی آمیزش ہوتی تھی ان سب کو چھوڑ دو اور اب جو ہدایت اللہ نے تمہیں بخشی ہے، اس کے مطابق خالصتًہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرو |
1 | یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جاہلانہ تصوّر تھا کہ سفرحج کے دَوران میں کسبِ معاش کے لیے کام کرنے کو وہ بُرا سمجھتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک کسبِ معاش ایک دُنیا دارانہ فعل تھا اور حج جیسے ایک مذہبی کام کے دَوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا۔ قرآن اس خیال کی تردید کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ایک خدا پرست آدمی جب خدا کے قانون کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، تو دراصل اپنے ربّ کا فضل تلاش کرتا ہے اور کوئی گناہ نہیں، اگر وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے سفر کرتے ہوئے اس کا فضل بھی تلاش کرتا جائے |
Surah 2 : Ayat 268
ٱلشَّيْطَـٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِٱلْفَحْشَآءِۖ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاًۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے
Surah 3 : Ayat 171
۞ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا
Surah 3 : Ayat 174
فَٱنقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوٓءٌ وَٱتَّبَعُواْ رِضْوَٲنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ
آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے
Surah 3 : Ayat 180
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ هُوَ خَيْرًا لَّهُمۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِۦ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ وَلِلَّهِ مِيرَٲثُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
Surah 4 : Ayat 32
وَلَا تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بِهِۦ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُواْۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَۚ وَسْــَٔلُواْ ٱللَّهَ مِن فَضْلِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے1
1 | اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں ۔کوئی خوبصُورت ہے اور کوئی بد صُورت۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدّن کی ساری گونا گونی قائم ہے اوریہ عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مضنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کر تا ہے وہاں ایک نوعیّت کا فساد رُونما ہوتاہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیےفطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دُوسری نوعیّت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دُوسروں کو دیا ہو اس کی تمنّا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دُعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” مَردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصّہ“، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی بُرائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا بالفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصّہ پائے گا |
Surah 4 : Ayat 37
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں1 ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
1 | اللہ کے فضل کو چھُپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گِر کر رہے۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیّال پر خرچ کرے، نہ بندگانِ خدا کی مدد کرے، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالٰی کی سخت نا شکری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمة علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے |
Surah 4 : Ayat 54
أَمْ يَحْسُدُونَ ٱلنَّاسَ عَلَىٰ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۖ فَقَدْ ءَاتَيْنَآ ءَالَ إِبْرَٲهِيمَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَءَاتَيْنَـٰهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا1؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا2
2 | ”ملکِ عظیم“ سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے |
1 | یعنی یہ اپنی نا اہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے، اس سے جب دُوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے اُمیّوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہُور سے وہ رُوحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں |
Surah 9 : Ayat 28
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُواْ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَاۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦٓ إِن شَآءَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں1 اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں ا پنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے
1 | یعنی آئندہ کےلیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجد حرام کے حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادہ کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔”ناپاک“ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات ، ان کے اخلاق، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریق ِ زندگی ناپاک ہیں اور اسی نجاست کی بنا پر حدود ِحرم میں ان کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدود حرم میں نہیں جا سکتے۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ یہ مسجد حرام میں جاہی نہیں سکتے۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی |
Surah 9 : Ayat 59
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُواْ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ وَرَسُولُهُۥٓ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَٲغِبُونَ
کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسولؐ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے1 اور کہتے کہ 2"اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا، ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں3"
3 | یعنی ہماری نظر دنیا اور اس کی متاع حقیر پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فضل و کرم پر ہے ۔ اسی کی خوشنودی ہم چاہتے ہیں ۔ اسی سے امید رکھتے ہیں۔ جو کچھ وہ دے اُس پر راضی ہیں |
2 | یعنی زکوٰۃ کےعلاوہ جو اموال حکومت کے خزانے میں آئیں گے ان سے حسب استحقاق ہم لوگوں کو اسی طرح استفادہ کا موقع حاصل رہے گا جس طرح اب تک رہا ہے |
1 | یعنی مال غنیمت میں دے جو حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے ہیں اس پر قانع رہتے، اور خدا کے فضل سے جو کچھ یہ خود کماتے ہیں اور خدا کے دیے ہوئے ذرائع آمدنی سے جو خوشحالی انہیں میسر ہے اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے |