Ayats Found (1)
Surah 42 : Ayat 51
۞ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَآىِٕ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا يَشَآءُۚ إِنَّهُۥ عَلِىٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا1 یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے روبرو بات کرے اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے2، یا پردے کے پیچھے سے3، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے، وحی کرتا ہے4، وہ برتر اور حکیم ہے5
5 | یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے ،اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے |
4 | یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہناۓ ہیں کہ ’’ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ‘‘۔ لیکن قرآن کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآ ءُ (پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو ’’ وحی کرنے ‘‘ سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو ’’ وحی ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نا بلد ہو |
3 | مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے ، مگر بولنے والا اسے نظر نہ آۓ ، جس طرح حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا (طٰہٰ، آیات 11 تا 48۔ النمل ، آیات 8 تا 12۔ القصص، آیات 30 تا 35) |
2 | یہاں وحی سے مراد ہے القاء، الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا، یا خواب میں کچھ دکھا دینا، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسفؑ کو دکھایا گیا (یوسف ، آیات 4۔100۔ الصافات 102) |
1 | تقریر ختم کرتے ہوۓ اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے |