Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 255
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌۚ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَۖ وَلَا يَــُٔودُهُۥ حِفْظُهُمَاۚ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے 1وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے2 زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے 3کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے4؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے5 اُس کی حکومت6 آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے7
7 | یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللی نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اُٹھائے گا |
6 | اصل میں لفظِ”کُرْسِی“ استعمال ہوا ہے ، جسے بالعمُوم حکومت و اقتدار کے لیے اِستعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں بھی اکثر کُرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مُراد لیتے ہیں |
5 | اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اُوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدُود حاکمیّت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصوّر پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالا ستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دُوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دُوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام ِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یاجِن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات، سب کا عِلم ناقص اور محدُود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی ازادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کوبھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اُس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے |
4 | یہ اُن مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے،جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دُوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اَڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرّب ترین فرشتہ اُس پادشاہِ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جُراٴت نہیں رکھتا |
3 | یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اُس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیّت میں، اس کی تدبیر میں اور اُس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دُوسری ہستی کا بھی تم تصوّر کر سکتے ہو، وہ بہرحال اِس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کر فر د ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اُس کا شریک اور ہمسر |
2 | یہ اُن لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوندِ عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسُوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصُوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا |
1 | یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبُود بنا رکھے ہوں، مگرا صل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکتِ غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دُوسرا نہ اس کی صفات میں اُس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اَور کو معبُود (الہٰ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے |
Surah 10 : Ayat 3
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے1 کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے2 یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو3 پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟4
4 | یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟ |
3 | اوپر کےتین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خدا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپناحکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔ |
2 | یعنی دنیا کی تدبیر وانتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگراس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔ |
1 | یعنی پیدا کرکے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملًا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پرآپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر۴۰، ۴۱) |