Ayats Found (2)
Surah 5 : Ayat 105
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا ٱهْتَدَيْتُمْۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو1، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو
1 | یعنی بجائے اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے ۔ اسے فکر اپنے خیالات کی، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر آدمی خود اللہ کی اطاعت کر رہا ہے، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست روی و راست بازی کی مقتضیا ت پُورے کر رہا ہے، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔ اِس آیت کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے، دُوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ”لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو ۔ میں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ، تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلّط کر دے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی |
Surah 66 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قُوٓاْ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَـٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے1 جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں2
2 | یعنی ان کو جو سزا بھی کسی مجرم پر نافذ کرنے کاحکم دیا جائے گا اسے جوں توں نافذ کریں گے اور ذرا رحم نہ کھائیں گے |
1 | یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خداکے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کوصرف یہی فکر نہیں ہو نی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہوتی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے ا ور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے‘‘۔ جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعود ؓ ،ابن عباسؓ ،مجاہد ؒ،امام میں الباقرؒ اور سدی کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے |